آڈیو لیکس

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے72 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینا اگرچہ ایک عدالتی فیصلہ ہے تاہم معروضی حالات میں اسے سیاسی ا نتشار کے حل کی ایک ممکنہ صورت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے 72 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیاگیا۔ عدالت نے ان ارکان کو استعفے واپس لینے کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی جبکہ عدالت نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی تمام ممبران کو دوبارہ سن کر فیصلہ کریں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے 72 ایم این ایز کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جانے کے بعد تحریک انصاف رہنمائوں نے قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے نہیں پتا کہ کوئی پارلیمنٹ دیکھتا یا سنتا ہے، پارلیمنٹ بے وقعت ہو چکی ہے، پارلیمنٹ اپوزیشن کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا ہمارا مقصد یہ ہوگا آوازیں اٹھائیں خاص طور پر پاکستان میں جو انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں پارلیمنٹ نہیں جا رہا ہوں لیکن میری پارٹی جا رہی ہے۔تحریک انصاف کے ایک اور رہنما نے فیصلے کے بعد کہا کہ اس فیصلے کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی اسمبلی میں بھرپور اپوزیشن کے طور پر واپس جا سکتی ہے۔انھوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ میرے خیال میں یہ تاریخی فیصلہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کی جانب لے جا سکتا ہے۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اپنے علاوہ باقی اراکین کی واپسی سے اتفاق کیا ہے۔عمران خان کی گرفتاری اور ڈرامائی رہائی کے بعد ہی معاملات طے ہونے میں پیش رفت کے اندازے لگائے جا رہے تھے نیز ان کے ممکنہ طور پر عازم سفر ہونے کے امکانات بارے بھی اندازے لگائے جارہے ہیں جس سے قطع نظر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا لب و لہجہ جس طرح بتدریج اعتدال اور یخ بستگی کی طرف راجع ہے ساتھ ہی ساتھ نو مئی کے واقعات کی مذمت اور ملوث عناصر کی گرفتاری و سزا کی حمایت ساتھ ہی ساتھ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بھی اسی واقعے کے بارے میں لب و لہجہ پولیس کی جانب سے تحریک انصاف کے سرکردہ رہنمائوں کے حوالے سے بظاہر کمزور گرفت یہ ساری چیزیں حالات کو معتدل بنانے کی طرف آنے کی علامات سمجھی جارہی ہیں عدالتی فیصلے کو کسی سیاسی عینک سے دیکھنا تو مناسب نہیں لیکن ماضی کے تجربات او ر کچھ جاری حالات میں اس کی گنجائش بہرحال نکل آتی ہے انتخابات کے حوالے سے عدالت کا ٹھوس موقف اور اس ضمن میں معاملات کا آخری لکیر تک جانا اور پھر اچانک سے معاملات میں تبدیلی و التواء جیسے معاملات ‘بہرحال حقیقت ہیں نو مئی کے واقعات کے بعد حالات نے جس طرح پلٹا کھایا اس سے تحریک انصاف کی حالات پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی کچھ درپردہ ممکنہ ملاقاتیں بھی حد کو عبور کرتے سیاسی انتشار کو روک لگانے کا باعث بننے کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں ان تمام واقعات اور پس منظر و پیش منظرسے قطع نظر بالاخر تحریک انصاف کی قیادت حالات کے اس سیاسی دھارے میں آگئی ہے جس میں ماضی میں بھی جو جماعتیں آئیں ان کو نقصان بھی اٹھانا پڑے اور ناپسندیدہ فیصلوں اور حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو جو سہولیات مراعات اور اعانت ملی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن آخر کب تک عاجلانہ فیصلوں کا بار اٹھایا جاتا تحریک انصاف کی حکومت کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے خاتمے کے ساتھ مسلسل دبائو اور یکطرفہ ہانکنے کا جو رویہ رہا اس کے باعث تحریک انصاف بالاخر ہر دو جانب سے دیوار سے لگ چکی ہے اور دیوار میں چن دینے کی کیفیت سے گزر رہی ہے ۔ان حالات میں بالاخر سمجھوتے کا راستہ ہی باقی بچتا نظر آتا ہے جس کی راہ تحریک انصاف کے مستعفی ممبران کی واپسی کی صورت میں ہموار ہو گئی ہے واپسی کے بعد معلوم ہوسکے گا کہ ان میں سے کتنے تحریک انصاف کی قیادت کے حامی رہ گئے ہیں تحریک انصاف کی جانب سے رضا مندی کا اظہار بھی سامنے آیا ہے البتہ ابھی سپیکر کی جانب سے اس بارے ردعمل آنا باقی ہے حالات سے نکلنے کے لئے اب یہی درمیانی راستہ شاید باقی ہے تحریک انصاف کو اپنی غلطی کی بہرحال بڑی قیمت ادا کرنا پڑی اور ان کے فیصلوں اور اقدامات سے بظاہر حکومت اور پی ڈی ایم دبائو کا شکار رہی مگر بالاخر ان غلطیوں اور حالات سے حکومت ہی مستفید نظر آئی۔ حالات جو بھی ہوں اور قیمت جسے بھی اداکرنی پڑے ملک و قوم کو اب ان حالات سے نکالنے کے لئے جملہ قوتوں کو سدھار کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور سیاسی انتشار کا خاتمے کرنے کے لئے کچھ لو کچھ دو اور معاملات طے کرنے کا رویہ اپنانا چاہئے اس کے بعد ہی عام انتخابات کا انعقاد اور نئی حکومت کا قیام ہو تو اسے قابل قبول بنانے کا بھی کوئی راستہ ابھی سے تلاش اور اختیار کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع ہونا چاہئے تاکہ یہ باب یہیں پہ بند ہو اور آنے والی حکومت اس کی پرچھائیوں سے محفوظ رہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار