جی20 کا کشمیر سیشن بھارت کے گلے پڑ گیا؟

چین اور ترکی سمیت کئی ممالک نے سری نگر میں منعقد ہونے والے جی ٹونٹی ملکوں کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا ہے کہ ایک متنازعہ علاقے میں اس سرگرمی کا جواز نہیں ۔سعودی عرب اورمیکسیکو نے اس کانفرنس میں شرکت کا درجہ گھٹا دیا ہے گویا کہ اب ان ملکوں سے آنے والے نمائندوں کی بجائے صرف دہلی کے سفارت خانوں میں تعینات افسر سری نگر اجلاس میں شرکت کریں گے ۔جی ٹونٹی ملکوں کی سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کی پاکستان کی طرف سے کھلی مخالفت کی گئی تھی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر تمام ملکوں سے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی ۔اب چین اور ترکی نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور سعودی عرب نے بھی نیمے دوروں نیمے بروں اجلاس سے عدم دلچسپی ظاہر کر دی ہے ۔بھارت نے جی ٹونٹنی ملکوں کے اجلاس سری نگر میںمنعقد کرکے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ایک تو کشمیر میں حالات نارمل ہو چکے ہیں اور ان حالات میں یہاں سرمایہ کاری اور سیاحت کے بھرپور مواقع موجود ہیں دوسرا یہ کہ کشمیر ی عوام بھارت کی طرف سے خطے کی الگ حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے سے خوش اور مطمئن ہیں اور اب یہ خطہ مکمل ذہنی اور عملی طور پر انڈینائز ہو چکا ہے ۔اس طرح بین الاقوامی برادری سے اس فیصلے پر مہرتصدیق ثبت کرائی جارہی تھی ۔بھارت کو ان مقاصد میں کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی ناکامی ہوئی کیونکہ کئی ملکوں کے بائیکاٹ اور کچھ کی طرف سے درجہ گھٹا نے کشمیر کو ایک بار پھر بین الاقوامی کینوس پر نمایاں کردیا ۔یوں لگ رہا تھا کہ تقسیم وہی پرانی ہے جو کشمیر کی شناخت کے خاتمے کے وقت سے چلی آرہی ہے۔چین اور ترکی وہ دوممالک تھے جنہوں نے کھل کر بھارت کے اس قدم کی مخالفت کی تھی اور کئی عملی اقدامات بھی اُٹھائے تھے ۔سعودی عرب اس وقت مکمل خاموش رہا تھا اور اس خاموشی کو نریندر مودی نے اپنے فیصلے کی خاموش تائید کے طور پر پیش کیا تھا ۔اب سعودی عرب نے سری نگر کانفرنس میں اپنی شرکت کا درجہ گھٹا کر کم ازکم اس عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا ہلکا سااشار ہ دیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ وہ پاکستان کے موقف کو کسی نہ کسی حد تک جگہ دینے کو تیار ہے۔اندونیشیا کی طرف سے تاحال کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس اجلاس سے پہلے کشمیر کو ایک رنگین اور دیدہ زیب فوجی چھاونی میں بدل گیا ہے ۔ رنگین اس طرح کہ ائرپورٹ سے کانفرنس کے مقام تک پورے راستے اور باقی درودیوار کو ترنگے کے تین رنگوں سے لیپ دیا گیا ہے ۔جس سے باہر سے آنے والوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ کشمیر اب بھارت کے رنگ میں رنگا جا چکا ہے ۔دیواروں پر رنگ پھیرنے سے اگر کوئی رنگ پائیدار اور حقیقی قرار پاتا تو کیا کہنے تھے مگر ابھی تک کوئی ایسا رنگ بنا ہی نہیں جو ذہنوں پر چڑھا یا جا سکے ۔کشمیر کی دیواروں کو ترنگے کے رنگوں سے بھردینے کا مطلب ہر گز نہیں کہ یہ رنگ کشمیریوں کے دلوں اور ذہنوں پر چڑھ چکا ہے۔سیکورٹی کے نام پر کشمیر دہائیوں سے ایک چھاونی کا منظر پیش کرتا رہا ہے مگر کانفرنس کے موقع پر مزید حفاظتی انتظامات نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔جھیل ڈل پر فوج کی مسلسل پٹرولنگ کا عمل جاری ہے اور فضا سے ڈرون مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔میرین کمانڈوز کی تعیناتی ایک اضافی عمل ہے۔جا بجا چیک پوائنٹس قائم ہیں جہاں راہگیروں کی شناخت پریڈ کی جا رہی ہے ۔سیکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور صاف طور پر کہا گیا کہ ان کی رہائی جی ٹونٹی کے بعد عمل میں آئے گی کیونکہ بھارت کو اس موقع پر عوامی مظاہروں کا خدشہ بھی ہے۔حریت کانفرنس اور دوسری تنظیمیں اس موقع پر کشمیریوں سے عام ہڑتال کی اپیل کر چکی ہیں۔عوامی مظاہروں کو روکنے کے لئے فوج کے خصوصی دستے بھی تعینات کئے گئے ہیں۔منتظمیں نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے تسلیم کیا ہے اس موقع پر بہت زیادہ سیکورٹی خدشات ہیں۔سیکورٹی خدشے کے پیش نظر ہی باہر سے آنے والے وفود کا ڈچی گام نیشنل پارک کا دورہ منسوخ کیا گیا ۔بھارت کے اخبار” دکن ہیرالڈ”نے جی ٹونٹی کے کشمیرسیشن کے حوالے سے بھارت بھوشن نامی صحافی کی رپورٹ”سری نگر میں جی ٹونٹی کانفرنس بھارت کے لئے سفارتی دھچکا” کے عنوان سے شائع کی جس میں کہا گیا کہ کئی ملکوں کے بائیکاٹ اور شرکت کا درجہ گھٹانے نے اس کانفرنس کو بے مقصد اور کٹی ہوئی پتنگ بنادیا ہے ۔کشمیر کی اس انداز سے تصویر دکھا کر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیاحت کو فروغ دیں گے؟۔اخبار نے جی ٹونٹی کے موقع پر سیکورٹی کے نام پر بھارت کے اقدامات کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔پاکستان کی طرف اس فیصلے کی کھلی مخالفت کو ایک بڑی حمایت اس وقت حاصل ہوئی جب اقوام متحدہ کے رپورٹر برائے اقلیتی امورفرنینڈ ڈی ورینیز نے اس فیصلے کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے اور لکھا کہ یہ اپنے قبضے کو جوازیت دینے کی بھونڈی کوشش ہے۔بھارت اس قدم سے اپنے غیر قانونی فیصلوں پر مہرتصدیق ثبت کروانا چاہتاہے ۔بین الاقوامی بردار ایسے میں بھارت کے اقدامات پر مہر ثبت نہ کرے جب کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔اقوام متحدہ کے نمائندے کے اس بیان پر بھارت کی تلملاہٹ دیدنی تھی اور جنیوا میں بھارت کے مستقل نمائندے نے اس کے جواب میں اقوام متحدہ کے نمائندے کو کہا ”تم کون ہو؟ کشمیر ہمارا ہے۔دکن ہیرالڈ کے علاوہ الجزیرہ اور کئی دوسرے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی کشمیر میں جی ٹونٹی اجلاس کی حقیقت بہت کھل کر بیان کی ۔یہ عالمی شہرت یافتہ سیاسی مبصرین بھی اس قدم کو کھلی تنقید کا ہدف بنارہے ہیں ۔امریکہ کے معروف دانشور اور ڈایریکٹر ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ایٹ ولسن سینٹر مائیکل کوگلمین میں الجزیرہ کو بتایا کہ جی ٹونٹی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کشمیر میں امن ہے اب کشمیر ایک خطرناک چیلنج کی بجائے ایک پرکشش موقع وامکان ہے۔بھارت سب اچھا ہے سب نارمل ہے دکھانا چاہتا ہے ۔اسی طرح ایک اور بین الاقوامی ماہر سیاسیات پروفیسر اشوک سوئین نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ ”کشمیر میں جی ٹونٹی کے انعقاد کے اثرات بھی وہی ہوں گے جو پانچ اگست کے فیصلے کے تھے ۔اس سے بھارت کی پوزیشن مضبوط نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل کشمیر کے مسئلے کو مزید انٹرنیشنلائز کرے گا۔یہ فیصلہ صرف مودی کے سپرمیسسٹ ووٹ کو ہی خوش کرے گا” ۔اس طرح بھارت نے جن مقاصد کے تحت کشمیر کو جی ٹونٹی کی ایک سرگرمی کے لئے چنا تھا وہ اس کے گلے پڑ چکی ہے۔اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک بھی اتنے بھولے اور سادہ نہیں کہ وہ جس مقام پر جا رہے ہیں اسے پرامن بنانے اور سب اچھا دکھانے کے پیچھے کتنا جبر وتشدد اور مصنوعی پن اور وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے