آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا ؟

ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہو جاتا ہے، ہم نے کچھ لکھا ہوتا ہے اور جب چھپ کر کالم سامنے آتا ہے تو ہمارے ہاتھوں کے توتے(طوطے)اڑ جاتے ہیں گزشتہ کالم میں بھی یہی ہوا کہ ہم نے اپنے بچپن ہی سے اپنے بزرگوں سے ایک ضرب المثل پشتو زبان میں جس طرح سن رکھی تھی اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے اردو میں یوں لکھا کہ ”خوار ملا کے بانگ پر کوئی کلمہ نہیں پڑھتا”مگر جب وہ چھپ کر سامنے آیا تو خدا جانے کس نے اصل ضرب المثل کی اپنے طور پرعقلی تصحیح کر کے اسے یوں کر دیا”خوار ملا کی اذان پر نماز کون پڑھتا ہے”غالباً انہوں نے یہ سوچا ہو کہ اذان کے بعد نماز پڑھی جاتی ہے بندے نے کلمہ پڑھا ہو تو اذان بھی دیتا ہے اور نمازبھی پڑھتا ہے بہرحال غلطی جیسے بھی ہوئی ہو اس کی کوئی توجیہہ نہیں پیش کی جاسکتی اور نہ ہی بزرگوں کے مقولے پر اعتراض کی گنجائش ہے کہ انہوں نے ایسا کیوںکہا تھا بہرحال اب جبکہ ہم عمر کے لحاظ سے 70 پلس ہوچکے ہیں تو اس حوالے سے اس ضرب المثل کو سننے کا ہمارا تجربہ کم از کم ساٹھ سال کا تو ہونا چاہئے اس لئے کہ دس سال کی عمر میں جو محاورے ‘ مقولے اور ضرب الامثال بندہ گھر اور ماحول میں سنتا ہے تو وہ اس کے حافظے میں راسخ ہوجاتے ہیںجبکہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں اس کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہوتی ہے۔ اس پر ہمیں کئی واقعات یاد آگئے ہیں ایک مشہور واقعے کا ذکر تو ہم پہلے بھی کر چکے ہیں کہ کس طرح ایک کاتب نے مشہور عالم مصور”پکاسو” کے بارے میں رسالے کے ایڈیٹر کے اپنے ہی لکھے ہوئے مضمون کا حشر کرکے رکھ دیا تھا ‘ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کمپیوٹر کے آنے سے پہلے اردو کتابت عموماً کاتبوں سے کروائی
جاتی تھی ‘ یہ بھی واضح رہے کہ کاتبوں کے بھی دو طبقے ہوتے تھے ‘ ایک بالکل ہی وہ جو مکھی پر مکھی مارا کرتے تھے ‘ اور دوسرے وہ جواعلیٰ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے اور متعلقہ ایڈیٹر حضرات کو مشورہ دے کرتحریر کوخوبصورت بنانے میں مدد گار ہوتے تھے ‘ جس زمانے میں خود ہم پشاور کے مختلف اخبارات میں بطور رپورٹر’ سب ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر کام کرتے تھے تو ان دونوں طبقات کے کاتبوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا ‘ خیر ہوا یوں تھا کہ جب محولہ ایڈیٹر نے پکاسو کے بارے میں مضمون لکھ کر کاتب کے حوالے کیا اور اسے ہدایت کی کہ میں ضروری کام سے جا رہا ہوں تم مضمون کی کتابت کرکے اور رسالے کی کاپی جوڑ کر پریس بھجوادو کہ پہلے ہی دیرہو چکی ہے ‘ حضرت کاتب نے حسب ہدایت مضمون کی کتابت کرکے کاپی جوڑی اور چپراسی کو دے کر پریس روانہ کیااگلے روز رسالہ چھپ کر آیا اور ایڈیٹر نے ”پکاسو” پر لکھے ہوئے مضمون پرنگاہ ڈالی تو سرپکڑ کر بیٹھ گیا ‘ کیونکہ حضرت کاتب نے اپنی مکمل علمیت جھاڑتے ہوئے جہاں جہاں پکاسو لکھا ہوا تھا اس کے آگے یہ سوچ کر کہ جلدی کی وجہ سے ایڈیٹرصاحب سے حرف”ر” رہ گیا ہے یوں بے چارہ پکاسو کاتب کی مہربانی سے”پکاسور” بن گیا ‘ اب قصور تو حضرت کا تب کا تھا مگر قصوروار بے چارہ ایڈیٹر بن گیا یعنی بقول غالب
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟
اس قسم کے کاتبوں کی کچھ اور وارداتیں بھی ہماری یادداشت کاحصہ ہیں ‘ مثلاً ایک کاتب آغہ جان ہوا کرتے تھے ‘ جن کے بزرگ شنید ہے کہ افغانستان میں کسی زمانے میں شاہی دربارکا حصہ ہوا کرتے تھے’ اور شہنشاہ امان اللہ خان کے خلاف بغاوت کے دوران نقل مکانی کرکے پشاور میں آباد ہوگئے تھے ‘ آغہ جان بے چارہ اس ہجرت کے موقع پرچارپانچ سال کے ہوں گے’ کسمپرسی کی حالت میں ان کے خاندان کی نقل مکانی کی وجہ سے انہیں زیادہ پڑھنے کاموقع نہ مل سکا ‘ بس جوتھوڑا بہت پڑھ سکے تھے اسی کے ساتھ پشاور میں اپنے بزرگوں کے ساتھ زندگی گزارنے پرمجبور ہوگئے تھے ‘رزق کے حصول کے لئے لڑکپن ہی سے جت گئے تھے اور نہ صرف کتابت کافن یکھا بلکہ پشاورمیونسپلٹی میں بطور سقہ(ماشکی) ملازمت ا ختیار کرکے صبح اور سہ پہر کو خاکروبوں کے ساتھ چھڑکائو کرنا ان کی ڈیوٹی تھی ‘ درمیان میں وہ ایک سہ روزہ اخبار ”آزادی” میں بطور کاتب بھی کام کرتے تھے ۔ ایک ضمنی بات یہ بھی ہے کہ آغہ جان کیرم کے اعلیٰ پائے کے کھلاڑی بھی تھے اور ان کے مدمقابل کم کم ہی لوگ ٹک سکتے تھے ‘ خیر ہوایوں کہ ایک بار رسالے آزادی کے ایڈیٹر مرحوم چغتائی صاحب(یہ الگ سے ایک کیریکٹر تھے) کچہریوں سے خبریں اکٹھی کرنے گئے ہوئے تھے ‘ وہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت سے انہیں ایک خبر ہاتھ لگی تو وہیں سے اپنے دفتر کے سامنے ایک کان میں نصب ٹیلی فون پر کال کرکے آغہ جان کو بلوا کرانہیں خبر ڈکٹیٹ کی اور کہا کہ یہ خبر تین کالمی سرخی کے ساتھ لگا کر مسطر(مسطر اس دور میں ایک خاص کاغذ ہوتا تھا جس پر لئی لگی ہوئی اور لئی کو زرد
رنگ دیا جاتا تاکہ کتاب شدہ خبریں وغیرہ کوپراسس کرکے چھاپا جا سکے) پریس میں دے آئو۔خبر یہ تھی کہ چارسدہ میں ڈکیٹ گروہ کے افراد پکڑ لئے گئے ہیں اورانہیں عدالت نے قید اور جرمانے کی سزا سنا دی ہے ‘ اب آغہ جان کی تعلیمی قابلیت کا احوال تو ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں انہوں نے چارسدہ کو یوں لکھا(٤سدہ) یعنی چار کا ہندسہ لکھ کر آگے سدہ لکھ دیا آزادی شام کا خبار تھا جس کے تمام عہدے ماسوائے کتابت کے اس کے ایڈیٹر مرزا چغتائی کے پاس ہوتے تھے ‘ یہاں تک کہ وہ اخبار کے ہاکر بھی خود ہی تھے اور اخبارات شائع ہونے کے بعد چکہ گلی(جہاں ان کا دفتر تھا) سے لے کر قصہ خوانی بازار تک بہ نفس نفیس جا کر دکانوں پر اخبار پھینکتے جاتے اور واپسی پر اخبار کی قیمت ایک ایک آنہ اکٹھا کرکے گھر چلے جاتے خدا جانے ان کو واپسی پر کس نے انہیں اس(٤ سدہ) کی جانب توجہ دلائی تو انہوں نے آغہ جان کی خوب خبر لی ‘ آغہ جان اور مرزا چغتائی کے کچھ اور کارنامے بھی ہیں جن کا ذکر تحریر کی صورت میں نہیں کیا جاسکتا ‘ اسی طرح پشاور صدر سے ایک اخبارشائع ہوتا تھا جس کا نام بوجوہ نہیں لیاجاسکتا اس کے کاتبوں کودو تین ماہ تک تنخواہیں نہیں ملیں تو ایک بار اخبار میں خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے عموماً جواشتہارات شائع کیا جاتا کہ ”اپنی تجارت کوفروغ دینے کے لئے ۔۔۔اخبار میں ا شتہار دیں”۔ کاتب نے غصے میں آکر وہاں یہ لکھ دیا”اپنی تجارت کابیڑہ غرق کرنے کے لئے ۔۔۔۔ اخباری میں اشتہار دیں” ان حالات میں اگر ہمارے الفاظ میں بے ضرر سی تبدیلی کردی گئی تھی توکوئی بات نہیں ‘ ہم ہی صبرکرلیتے ہیں۔لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لئے کالم ضروری تھا اور قارئین بھی اخباری لطائف سے محفوظ ہوئے ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''