بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کے اعلان کے ساتھ 7رکنی کمیٹی قائم کئے جانے پر حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ(ن)سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا اور رہنمائوں نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف غیرمناسب بلکہ جمہوری اقدار و روایات کے بھی منافی ہے۔ عمران خان کا معاندانہ طرزعمل اور مخالفین کے بارے میں سستی جملہ بازی اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے لیکن اب اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات کے اصرار کو ترک کرکے سات رکنی کمیٹی بناکر حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہیں تو حکومتی اتحاد کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کھلے دل اور سیاسی شعور کے عملی مظاہرہ کو ترجیح دے۔ میاں نوازشریف اور (ن)لیگ کے دیگر رہنمائوں نے اپنے جوابی ردعمل میں جن خیالات کا اظہار کیا یا مذاکرات کے لئے جو پیشگی شرط رکھی وہ قطعی نامناسب ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے جنم لینے والے مسائل کی سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھا جائے کہ اگر حکمران اتحاد اور خصوصا (ن) لیگ نے ایک قدم آگے بڑھ کر اصلاح احوال کے لئے اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کیا تو عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ انہوں نے تو حکومت سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کردی تھی مگر حکومت اس کیلئے آمادہ و سنجیدہ نہیں ہوئی۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ پچھلے ایک برس سے ملک اور عوام کو جس سیاسی و معاشی ابتری مہنگائی اور بیروزگاری کے عذابوں کا سامنا ہے ان کی شدت میں کمی لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی۔ عمران خان کے طرز سیاست اور انداز تکلم سے لاکھ شکایات ہوں اس کے باوجود وہ رائے عامہ کے ایک بڑے طبقے کی حمایت رکھتے ہیں اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے جس جارحانہ انداز میں سب کو آڑے ہاتھوں لینے اور اپنے تئیں کچل کر رکھ دینے کی راہ اپنائی اس کے نتائج ان کے سامنے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان نتائج نے ان پر یہ حقیقت دوچند کردی ہو کہ وہ پچھلے ایک برس سے جن سے بات کرنے کے لئے بیانات دیتے خواہشات کا اظہار کرتے اور پیغام رسانی میں مصروف رہے ان کی بجائے حکومت سے مذاکرات سود مند ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہے تو یہ خوش آئند امر ہے۔ ثانیا یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قائدین نہ تو مذاکرات کی ضرورت سے چشم پوشی کرتے ہیں نہ ہی پیشگی شرائط عائد کرتے ہیں ابتدائی طور پر تو یہ جاننا ضروری ہے کہ عمران خان کی قائم کردہ سات رکنی مذاکراتی کمیٹی کن امور پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے یہ کہ کمیٹی اس حوالے سے کتنی بااختیار ہے۔ اس حد تک تو بات درست ہوگی کہ عمران خان خود مذاکرات کے عمل کا حصہ بنیں البتہ یہ مطالبہ درست نہیں ہوگا کہ وہ پہلے معافی مانگیں یا یہ فیصلہ نما اعلان کہ شہدا کی یادگاروں کو جلانے والوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے ۔ (ن) لیگ کے رہنما ماضی میں ایک طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی کے لئے بھی ایسا ہی منفی رویہ اپنائے رہے اس کا حاصل وصول کیا ہوا یہ حساب انہیں اچھی طرح معلوم ہے اسی سبب یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ انہیں عمران خان کی جانب سے جماعتی سطح پر مذاکرات کے لئے آمادگی اور مذاکراتی کمیٹی کے قیام کو خوش آئند سمجھنا چاہیے۔ ایک طرح سے یہ سیاسی قوتوں کی فتح ہے کہ جو جماعت کل تک اپنے سیاسی مخالفین کی بجائے آرمی چیف سے مذاکرات کے خواب دیکھنے اور فروخت کرنے میں مصروف تھی اب اس کی آنکھ کھل گئی ہے اور اسے بہرطور یہ حقیقت ماننا ہی پڑی کہ سیاسی اختلافات کو طے کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو ہی مل بیٹھ کر غوروفکر کرنا اور حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ (ن) لیگ یا وہ دیگر شخصیات و جماعتیں جو عمران خان سے مذاکرات کو غیرضروری سمجھتی ہیں اس امر کو کیوں نظرانداز کررہی ہیں کہ ماضی میں جب سیاسی جماعتوں نے تدبر و دانش کے مظاہرے کی بجائے مخالفین کو قابل گردن زدنی سمجھا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنا پر یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ عمران خان کی جانب سے مذاکرات کے لئے آمادگی کے جواب میں طنزیہ جملے اچھالنے، معافی مانگنے کے مطالبے اور دوسری بے سروپا باتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں ان کی وجہ سے عوام کی جو درگت بنی یا بن رہی ہے اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جانی چاہیے۔ یہاں ہم عمران خان سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ بھی اپنے انداز تکلم اور طرز سیاست پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اس امر کو سمجھنے کی کوشش بھی کریں کہ فلاں دن سرپرائز دوں گا۔ فلاں دن یہ کردوں گا کی بڑھکوں نے انہیں سیاسی تنہائی سے دوچار کردیا ہے رہی سہی کسر ان کے حامیوں نے 9 اور 10مئی کو پوری کردی جس سے اسٹیبلشمنٹ کو فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے کا موقع مل گیا ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ا قتدار سے رخصت ہونے کے بعد وہ کشتوں کے پشتے لگانے کے جنون کو ہوا دینے کی بجائے ابتدائی دنوں میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور اگلے مرحلہ میں اپنی دو صوبائی حکومتوں کو گھر بھیجنے کے لئے صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کرتے تو وہ اقتدار کے ایک بڑے شراکت دار کے طور پر اس وقت بارگین کی پوزیشن میں ہوتے ۔ بدقسمتی سے اپنے عاجلانہ فیصلوں اور سب کو مٹادو کے جنون پر مبنی سیاست نے انہیں فائدہ کی بجائے نقصانات سے دوچار کیا۔ انہیں اپنی سیاست کے حالیہ منظرنامے کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے پچھلے چند دنوں میں ان کے کتنے بااعتماد رفقا پارٹی چھوڑ کر چلے گئے گو یہ صورتحال تسلی بخش یا لائق تحسین ہرگز نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حالات خود ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ان کے پیدا ہونے اور مسائل میں اضافے کی وجہ صرف اور صرف ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہے۔ اس لئے جہاں حکومت کو چاہیے کہ وہ عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت انداز میں جواب دے اور آگے بڑھے وہیں عمران خان کا بھی فرض ہے کہ وہ تنہائی سے دوچار کرنے والی روش کو ترک کرکے سیاسی طرز عمل اپنائیں۔ ہماری دانست میں ان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے سے انہیں نقصان ہی ہوا۔ تنہائی سے دوچار ہونا اور ساتھیوں کا چھوڑ جانا ہر دو امر اس بات کے متقاضی ہیں کہ عمران خان اپنی پالیسی طرز سیاست اور انداز تکلم تینوں پر نظرثانی کریں اور مستقبل کے حوالے سے اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک باشعور سیاسی رہنما کا کردار ادا کریں گے۔ بلاشبہ وہ ایک بڑے طبقے کے مقبول رہنما ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہیں چھوڑ جانے والوں کی وجہ سے ان کی سیاسی حیثیت کم نہیں ہوگی مگر اس سیاسی حیثیت کو سنبھال کر رکھنے اور آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں۔ ماضی کی جارحانہ سیاست سے نجات حاصل کرکے افہام و تفہیم کی اہمیت کو تسلیم کریں۔ انہیں یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ سیاسی عمل میں برداشت کرنے والے ہی برداشت کئے جاتے ہیں عدم برداشت پر مبنی رویہ شخصیت اور سیاسی جماعت کو تنہا کردیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا