ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں

ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں

نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمد اعظم خان نے کہا ہے کہ خطے کی صورتحال نے سابقہ قبائلی اضلاع کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ان اضلاع کے عوام گزشتہ چالیس سالوں سے گوناں گوں مسائل سے دوچار ہیں۔ قبائلی اضلاع کے مسائل کو حل کرنے اور وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔امر واقع یہ ہے کہ اگرچہ سابقہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہو چکا ہے لیکن بجٹ میں اُن کے شیئرز ابھی تک صوبے کو نہیں مل رہے ، قبائلی اضلاع 50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے،جن کا نہ تو این ایف سی ایوارڈ میں حصہ صوبے کو مل رہا ہے اور نہ ہی این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد دینے اور نہ ہی اعلان کردہ مقررہ رقم کی بروقت ادائیگی ہوتی ہے جو ان کا جائز حق ہے اور ان کو اُن کا جائزحق ملنا چاہئے۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جب سے اُنہوں نے نگران وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے ضم اضلاع کے مسائل کے حل اور وفاقی بجٹ میں اُن کے حقوق کے حصول کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے تین دفعہ وزیراعظم سے ملاقات کرکے معاملہ اُٹھایا ہے جبکہ وفاقی حکومت کو متعدد خطوط بھی لکھ چکے ہیں ۔لیکن ا فسوسناک حد تک اس ضمن میں خاموشی طاری ہے اور یہی صورتحال بدقسمتی سے ہر دور حکومت کا وتیرہ رہا ہے وزیر اعلیٰ مسلسل کوشاں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح صوبے کو اس کے حصے کا رقم ملے بہرحال وزیراعلیٰ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ضم اضلاع کے جائز حقوق کے حصول کے لئے ہر سطح پر کوششیں جاری رکھیں گے اور اس سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔دریں اثناء جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کو دوبارہ خراب کیا جارہا ہے قبائل محب وطن اور مغربی سرحدوں کے محافظ ہیں اس لئے یہاں امن کو ترجیح دی جائے گی۔ وقت آگیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو ختم کر دیا جائے اب تک کے آپریشنوں کے باوجود قبائلی علاقوں میں مثالی امن قائم نہیں ہو سکا ہے اس لئے امن و امان کا مسئلہ قبائلی عوام پر چھوڑا جائے کیونکہ ان علاقوں کو اپنے عوام بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن اور اس کے بعد صحت کا بڑا مسئلہ ہے اس بنیاد پر امن اور صحت سمیت دوسرے درپیش مسائل کے حل کے لئے قبائل کو اپنا حق دیا جائے اور قبائلی عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کیا جائے۔ قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ سے حصہ دیا جائے اور اس مطالبہ کے لئے قبائل کے حقو ق اور امن کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ضم اضلاع سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں اور انہیں سو ارب روپے کا پیکیج دیا جائے۔ خیبر پختونخوا کو وفاق کی جانب سے وسائل بجلی کے خاص منافع اور رائیلٹی کے مد میں بقایا جات اور برابر کا حصہ نہ دینے کا مسئلہ دیرینہ اور حل طلب چلا آرہا ہے ضم قبائلی اضلاع کو محروم رکھنے کا جو سلسلہ سابقہ فاٹا کے دور میں تھا اب بھی اس صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ضم اضلاع کے عوام کے حصے کی رقم اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کا بوجھ بھی خیبر پختونخوا حکومت پر آنے کے بعد صوبہ شدید مالی مسائل کا شکار ہے صوبوں پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور کوئی بجٹ تخمینہ حاصل نہیں ہو پاتا جس کے باعث سارا مالی سال ڈانوں ڈول اور وفاق کے رحم و کرم پر گزرتا ہے گزشتہایک صفحے اور صوبہ و مرکز میں ایک حکومت کے دور میں صوبے کی محرومیاں برقرار رہیں تو کسی اور دور میں جب مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے توقع ہی عبث ہے یہ معاملہ اپنی جگہ لیکن اسے جواز بنا کر صوبے کو اس کے آئینی حق سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بار بار رابطوں کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے سرد مہری کا مظاہرہ صوبے کے عوام پر ظلم کے مترادف ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے کے مسائل کے حوالے سے جو تصویر پیش کی ہے صورتحال کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اس حوالے سیاسی جماعتوں کے جرگے کی بھی شنید رہی لیکن اس میں بھی پیش رفت کا ہنوز انتظار ہے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو پورے صوبے کی سیاسی قیادت اور عوامی جدوجہد کا متقاضی ہے خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع ایک اور سنگین مسئلہ امن وامان کی صورتحال کا ہے دہشت گردی کے نام پر عرصے سے ضم اضلاع میں جو صورتحال جاری ہے اس سے علاقہ مزید مسائل کاشکار اور لوگوں کی روز مرہ زندگی تک متاثر ہو رہی ہے ہر دو مسائل ایسے ہیں جس میں صوبے کی حکومت کم اور وفاق پر زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی ذمہ داری نبھائے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش