اندرونی معاملات اور آئی ایم ایف

بجٹ۔۔ توقعات اور خدشات

ہر سال بجٹ سے پہلے کی صورتحال پر دو طرح کی آراء سامنے آتی ہیں ‘ ایک تو عوامی نکتہ نظر پر مبنی رائے ہوتی ہے جو درپیش حالات کے تناظر میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سے چھٹکارہ چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب حکومتی رائے ہوتی ہے’ اندرونی حقائق سے پوری طرح باخبر ہونے اورآنے والے حالات کے تناظر میں عوام کو یہ باور کرانے کی حکمت عملی حکومتی زعماء کے بیانات میں واضح کی جاتی ہے کہ عوام کو ہر صورت ریلیف دیا جائے گا’ اسی طرح بجٹ پیش کئے جانے کے بعد یہ دونوں آراء گڈ مڈ ہوکرایک ایسی صورتحال میں ڈھل جاتی ہیں جن سے واضح کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ سرکاری حلقوں میں بجٹ کو (ہمیشہ) عوام دوست قرار دینے کے بیانئے کوآگے بڑھایا جاتا ہے جبکہ ماہرین اقتصادیات ‘ صنعتی اورتجاری شعبوں سے تعلق رکھنے والے واقفان حال اور بعض سمجھ بوجھ رکھنے والے عوام کے اندر ملی جلی کیفیت رہتی ہے’ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آنے والے بجٹ کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بجٹ میں پورے ملک کے الیکشن کے لئے 42 بلین رکھ دیئے گئے ہیں جہاں تک عام انتخابات کے لئے 42 بلین کی رقم مختص کرنے کا تعلق ہے اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انتخابات کا عمل قسطوں میں مکمل کرنے کی جو پالیسی موجودہ حکومت نے اختیار کر رکھی ہے اسی پر عمل کیا جائے گا’ اس حوالے سے ایک سیاسی جماعت اورعدلیہ کے مبینہ گٹھ جوڑ سے ابھرنے والی صورتحال کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے تاہم اس صورتحال کے پیش نظر اگرحکومت قانون سازی کرکے مستقبل میں بھی اس نوع کی”سازشوں” کا راستہ روک سکے تو بہترہوگا، جہاں تک عوام اور خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو بجٹ میں ریلیف دینے کا تعلق ہے تو بدقسمتی سے گزشتہ کئی برس سے تنخواہ دار طبقے بشمول پنشنرز کی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر دن بہ دن گرنے بلکہ گہری کھائی میں پہنچنے کی وجہ سے جوحالت زار ہو رہی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں اور پنشن میں بہ مشکل دس تا پندرہ فیصد اضافہ ہوتا ہے مگر مہنگائی میں 40تا 70 فیصد اضافہ کی وجہ سے ان کی گرزے سال کی آمدن میں قدر کے حوالے سے کمی ہوتی رہتی ہے خصوصاً پنشنرز جن حالات سے گرز رہے ہیں وہ قابل توجہ ہے’ مستزاد یہ کہ بعض سرکاری اداروں کے ملازمین اور پنشنرز کوکئی کئی ماہ ان کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے ‘ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پنشنرز کے ساتھ مسلسل روا رکھی جانے والی زیادتی قابل غور ہے’ وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی جلی ہوئی عمارت کے معائنہ کے موقع پرملازمین اور پنشنرز کو فوری ادائیگی کے احکامات دیئے جس پر حاضر سروس ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے تو احکامات جاری کردیئے گئے مگر پنشنرز گزشتہ ماہ اپریل سے پنشن سے محروم رکھے جارہے ہیں ‘ وزیر خزانہ اوردیگر متعلقہ حکام کیا ریڈیو پنشنرز کو انسان نہیں سمجھتے کہ ان کوبھی ان کا جائز حق ادا کرنے کے احکامات صادرکریں؟۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت