لڑو اور حکومت کرو

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ سنجیدہ مذاکرات صرف وزیراعظم شہباز شریف سے ہی ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب نو مئی کے واقعات اور رہنمائوں کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد چیئرمین عمران خان کئی تقاریر اور انٹرویوز میں مذاکرات کا اشارہ دینے لگے ہیں بلکہ اسی کی پیشکش پر مجبور ہوئے ہیں۔وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک سیاستدان ہیں، آرمی چیف، اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی مذاکرات کے خواہاں ہیں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور مجھے خدشہ ہے یہاں بات کرنے کو کوئی ہے ہی نہیں۔ساتھ ہی اسی موقع پرانہوں نے وزیراعظم کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے میں آپ کس کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔اسی طرح انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پارٹی کے اندر ایک کمیٹی بھی بنائی، جس کے جواب میں نواز شریف نے کہا تھا کہ بات چیت سیاست دانوں سے کی جاتی ہے، تخریب کار گروہ سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔اس بارے دو ر ائے نہیں کہ سیاستدانوں کے درمیان مکالمہ ہی موجودہ بحران کا واحد حل ہے لیکن یہ مذاکرات کون کس سے کرے گا اس کا فیصلہ کافی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ حکمراں اتحاد ہو یا اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف ان کے بیانات آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس سے مذاکرات کے لیے درکار ماحول ہر دوسرے روز متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ روز ہی پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیںاس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کا مقدمہ آنے سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ حکومت میں شامل جماعتوں سے مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ وہ بے اختیار ہیں۔ خود عمران خان اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے مذاکرات کے لیے صدر عارف علوی اور ہاشم ڈوگر کے ذریعے آرمی چیف کو پیغامات بھجوائے لیکن ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔معلوم نہیں تحریک انصاف صرف اسبٹیبلشمنٹ ہی سے مذاکرات پربضد کیوں ہے قبل ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک روڈ میپ ملنے کے بعد حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تین ادوار ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور پرتشدد واقعات کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ عمران خان نے پارٹی رہنمائوں کے خلاف کریک ڈاون، ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کے بعد بار بار سوشل میڈیا پر اپنے خطابات میں کہا کہ اب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔انکار اور اقرار کے اس ماحول میں مذاکرات کی توقع عبث ضرور ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مذاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقا میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مذاکرت کی میز پر بیٹھے تو قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا۔میڈیا سے لے کر معاشرے کا ہر طبقہ اور صاحب فکر اور باشعورشخص سیاستدانوں کے مل بیٹھ کر باہمی معاملات نمٹانے اور ملک کو اس بحران سے نکالنے کا منتظر ہے لیکن خود سیاستدان ایک دوسرے سے معاملت پر تیار نہیں آخر جمہوریت کی یہ کیسی دعویداری ہے اب تو بات سیاسی جماعت تسلیم کرنے کی بجائے اسے دوسرا نام دینے تک آگئی ہے او رنو مئی کے واقعات کی آڑ میں کچھ ایسی تیاریاں ہوتی نظر آرہی ہیں کہ ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت کو مزید دھچکا لگ سکتا ہے سیاسی معاملات میں اس قدر بگاڑ اور بے لچک رویہ بالاخر اہل سیاست ہی کے لئے باعث خسران ثابت ہو گا اس امر کا جتنا جلد ادراک ہو اتنا بہتر ہوگا۔ جو لوگ گرفتار ہیں جن کے خلاف مقدمات ہیں ایک سیاسی جماعت کاکل ا ثاثہ یہی لوگ نہیں اس کے باوجود کہ یہ ان کے اہم عہدیدار ہیں مقدمات میں ملوث ہونا الگ معاملہ ہے اور سیاسی عمل الگ معاملہ ہے مقدمات ہی اگر سیاسی مذاکرات کی راہ میں مزاحم امور قرار پائیں تو خود حکومتی صفوں میں بھی ایسے لوگ کم ہی ملیں گے جو ماضی و حال بلکہ لمحہ موجود میں بھی کسی مقدمے میں ملوث نہ ہوں ان کے مقدمات عدالتوں اور نیب میں نہ ہو۔بہرحال اس سے قطع نظر اس صورتحال میں بات چیت کے لئے موجودہ اور سابق وزیر اعظم ہی موزوں شخصیات ہیں مگر ضد اور انا کی دیواریں ہر دو جانب کی اتنی اونچی کردی گئی ہیں کہ ان دیواروں کے اس پار سیاست مفاہمت مکالمہ اور ملک کو ان حالات سے نکالنے کی کوئی صدا سنائی ہی نہیں دیتی اور نہ ہی اس کی باز گشت سنی جا سکتی ہے اس حقیقت کے باوجود کہ سیاسی معاملات کا بالاخر حل مذاکرات کی میز پر ہی نکل آتا ہے یہ حقیقت ہی نظر انداز ہو رہی ہے الیکشن کمیشن حکومت اور پی ڈی ایم نہ تو نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کی آئینی ذمہ داری نبھا سکی ہیں اور نہ ہی انتخابات کے انعقاد بارے کسی پیش رفت پر تیار ہیں یہ سارا عمل ملک کو سیاسی گرداب میں ڈالنے اور سیاسی وجمہوری اداروں کو کمزور اور بے وقعت کرنے کا باعث بن رہا ہے جس سے بحرانی صورت میں آئے روز شدت آرہی ہے جوکسی بھی وقت افادہ مختتم پر پہنچ سکتا ہے جس کے بعد نظام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیںاب بھی وقت ہے کہ قانونی معاملات کو ایک طرف جاری رکھتے ہوئے سیاسی معاملات طے کرنے کی راہ اپنائی جائے اور عوام کو ملک میں سیاسی استحکام لانے کی کم از کم امید تو دلائی جائے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''