ترکیہ: سو سالہ معاہدہ اور الیکشن

ترکیہ میں جاری الیکشن نے پوری دنیا کی نظریں ترکیہ کی جانب مبذول کروائی ہوئی تھیں، یورپی میڈیا ہو یا عرب میڈیا سب ہی اس کو مکمل کوریج دے رہے تھے چونکہ ریاستوں کے تعلقات ترکیہ کے ساتھ کیسے رہیں گے اس کا فیصلہ ہونے والے الیکشن نے ہی کرنا تھا، چند ریاستیں جو اردگان حکومت کی اتحادی ہیں وہ مکمل حق میں تھیں کہ کسی طرح اردگان اپنے اس طویل ترین دور اقتدار کو بحال رکھنے میں کامیاب ہوجائیں جبکہ ان کی مخالف ریاستیں بلکل بھی اس حق میں نہ تھیں کہ وہ پھر سے اقتدار میں آئیں لیکن بہرحال اردگان کانٹے کے مقابلے کے بعد میدان مارنے میں کامیاب ہو ہی گئے، 20 سالہ طویل اقتدار کا حصہ رہنے کے بعد اس بار طیب اردگان کو اتنے سخت مقابلے کا سامنا بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حالیہ ہولناک زلزلے کی تباہیوں کی وجہ سے کرنا پڑا، مہنگائی جو عالمی حالات کی وجہ سے کم و بیش پوری دنیا کو ہی متاثر کررہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جب زلزلے میں وہ عمارتیں بھی گرئیں جن کی تصدیق ترک حکومتی ذمہ داروں کی جانب سے زلزلہ مزاحم اور سیسمک عمارتوں کے طور پر کی گئی تھی تو اس معاملے نے اپوزیشن پارٹی جس کی قیادت کِلکڈاروگلو کر رہے تھے کو بھرپور موقع دیا کہ جس سے وہ اپنی الیکشن کیمپین کو تیزی کے ساتھ مؤثر بنا سکیں کیونکہ حقیقتاً ان گرنے والی عمارتوں کا کیس یہی تھا کہ ان پر لگائی جانے والی مالیت میں بہت کرپشن کی گئی تھی اور جس طرح انہیں تعمیر کیا جانا چاہئے تھا، وہ اس ڈھانچے کے مطابق تعمیر شدہ نہیں تھیں اور پھر بھی ان تمام عمارتوں کو زلزلہ مزاحم قرار دے دیا گیا تھا لیکن سخت مقابلے اور کِلکڈاروگلو کے قابل تعریف اپوزیشن کا کردار نبھانے کے باوجود بھی وہ
شکست خوردہ رہے اور اردگان نے واضح برتری حاصل کی، بہرحال اب جبکہ اردگان پھر سے حکومت کا حصہ بن چکے ہیں تو بہت سے ایسے سوالات اٹھ سرہے ہیں جو عالمی سطح پر اپنا کردار نبھانے والی ریاستوں اور ترکیہ کے حوالے سے عالمی تعلقات کا سانچا تیار کریں گے، اس میں یورپ جس کے تعلقات طیب اردگان حکومت سے ان کی ڈکٹیٹرشپ ٹائپ پالیسز کی وجہ سے خراب ہوچکے تھے، بارہا انسانی حقوق، عدالتی اور صحافتی آزادی کے سلب کئے جانے پر اردگان کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ مزید برآں ترکیہ کے پوٹن سے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی یورپ کیلئے وجہ تشویش بنے ہوئے ہیں، پھر اردگان کی مذہبی پالیسز ان کے مابین فاصلوں کو بڑھا رہی ہیں، لہٰذا طیب اردگان کی فتح کے بعد یورپ اور ترکیہ کے تعلقات خوش کن نظر نہیں آ رہے ہیں، اردگان کی پورے خطے میں ترکیہ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور مسلم دنیا کی قیادت کرنے کے لئے بھرپور کوششیں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے لئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہیں، مزید برآں ترکیہ اور سعودی عرب کے مابین بھی بہت سے مسائل پر اختلافی رجحانات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی بھی ان ریاستوں کے درمیان
خوشگوار تعلقات نہیں رہے ہیں جن میں فلسطین کا تنازع اور ایران، قطر اور یمن کے بارے میں ان کے مختلف موقف اختلاف کی وجہ بنتے رہے ہیں جبکہ شام کے تنازعہ کے حوالے سے ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان واضح اختلافات موجود ہیں، ان تنازعات کی پیچیدگیوں نے ترکیہ کو روس اوراس کے اتحادیوں، چین اور ایران کے قریب کر دیا ہے تاہم اس کے برعکس امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب متحد رہے تھے لیکن حالیہ طور پر ہی چین کی جانب سے ثالثی کے کردار کے ساتھ جو سعودیہ اور ایران کے مابین امن معاہدہ قائم ہوا ہے وہ بہرحال ترکیہ کے تعلقات چین کے توسط سے سعودیہ کے ساتھ بہتری کی طرف لے کے جائیگا، آخر کار چین، روس اور ایران کا گٹھ جوڑ ترکیہ کے لئے نیٹو اور کسی دوسرے اتحاد کے مقابلے میں زیادہ موزوں نظر آتا ہے، خاص کر اگر ہم پاکستان کے حوالے سے اس کی بات کریں تو اردگان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں لیکن کسی ملک کی ایک خاص حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرلینا سفارت کاری کی کامیابی کی غمازی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو چاہئے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے فریقین سے تعلقات کو یکسانیت دیتے ہوئے سفارت کاری کے اہم عناصر کو ایسے عمل میں لائیں جس سے ہمارے ترکیہ کے ساتھ تعلقات کسی ایک نظریاتی پارٹی کے محتاج نہ ہوں چونکہ اردگان کی پالیسز مذہبی معاملات کے قریب تر ہوتی ہیں لہٰذا پاکستان کے عوام کے دل میں اردگان کے حوالے سے ایک
خاص مقام ہے جس کو وہ مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کیلئے ایک اہم کڑی سمجھتے ہیں، جنگ عظیم اول کے وقت ترکیہ جرمنی کے ساتھ تھا اور اس گروپ کی شکست کے بعد ترکیہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں قریباً دنیا بھر میں قائم رہنے والی خلافت، خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور ترکیہ کو انتہائی ابتر حالت میں چھوڑ دیا گیا، پھر ترکیہ کے دوبارہ جنم کیلئے مصطفی کمال اتاترک پاشا کھڑے ہوئے اور فاتح ریاستوں سے ان کی کڑی شرائط کے مطابق بہت سی پابندیوں کے ساتھ خلافت کا خاتمہ کرنے سمیت اسلامی اقدار حتیٰ کہ حجاب اور داڑھی تک پر پابندی عائد کرنے جیسی شرائط کو تسلیم کر لیا گیا اور ان تمام پابندیوں کو 24 جولائی 1923ء میں معاہدہ لوازن کے نام سے سو سالہ مدت کے لئے لاگو کیا گیا، یعنی 1923 تا 2023۔ اب فقط سو سال پورے ہونے میں ایک ماہ اور کچھ ایام باقی ہیں، کھوئی ہوئی خلافت کی قیادت اور مسلم دنیا کی رہنماء ریاست بننے کیلئے ترکیہ اردگان کی پالیسز کے تحت بہت سے اقدامات کرسکتا ہے اگرچہ معاہدہ لوازن کے فوری خاتمے کے ساتھ نہ سہی لیکن کچھ تاخیر سے ہی ترکیہ وہ تمام اقدامات ضرور کریگا جو کہ مسلم ریاستوں کے لئے ایک مرکزی دھارے کے طور پر ثابت ہونگے جو کہ پھر سے سعودیہ عرب کی حیثیت کو چیلنج کرسکتا ہے، لہٰذا مسلم امہ بالخصوص سعودیہ، ایران اور ترکیہ کو ماضی کے عبرت ناک سبق کو یاد کرتے ہوئے یکجہتی کی قوت کے حصول کے لئے سیاسی مفادات کی جنگ سے باہر نکل کر اقدامات کو اپنانا ہوگا جس کیلئے اوآئی سی کے پلیٹ فارم کو بہت بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ سیاسی دشمنیاں نہ نبھائی جائیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''