مشرقیات

تو صاحب ! ظاہری اعضاء کی تقریباً جوڑیاں ہیں آنکھوں کی یوں کہ دوسروں سے لڑائی جائیں خودآپس میں نہ لڑیں ۔۔ ۔۔ان کے بیچ ناک کی دیوار کھنچی ہونے کے باوجود زبردست اتحاد۔۔۔کان دو کہ ایک سے سن کر دوسرے سے نکال دینے کے لیے۔۔۔دو ہاتھ۔۔دو دو ہاتھ کرنے کے لیے یا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے لیے۔۔اور السیوں کو ٹانگ پر ٹانگ رکھے وقت کے ضیاع کے لیے۔۔کاندھے تو بدلنے کے لیے ہیں اور اہلِ خانہ کا بوجھ اٹھانے کے لیے ۔۔۔گال اہنسا کی منہ بولتی تصویر ،ایک پر طمانچہ پڑے تو دوسرا پیش کیا جائے۔۔۔
دو لب نہ ہوتے تو جاں بلب شعراء کو دو لپٹی ہوئی کلیاں دیکھ کر جان میں جان نہ آتی اور نہ ہی۔۔لب بند ،لب سوز، لبریز چائے کی چسکیاں لے کر چائے پر چرچا ہوتی !۔۔چرچا کے موضوعات تو ملک عزیز میں بہت سے ہیں جن پر ہمیشہ ہمیش زبان بندی ہے۔۔۔ہاں لمبی زبان نکال کر بھانڈ کے کرتب دکھا کر چند مخصوص ایشوز پر زبان درازی ہوتی ہے۔۔۔۔یہاں ،،زبان سنبھال کے ،، کا کوئی اصول کارفرما ،کارساز نہیں۔۔۔نہ ہی زبان گدی سے کھینچ لینے کا کوئی قانون نافذ ہوتا ہے۔ہاں تو صاحب !۔۔ذکر بارے زبان کا کہ۔۔ایک ہو کر بھی وہ غضب ڈھاتی ہے کہ دانتوں پسینہ آجائے۔۔دانتوں تلے انگلی دبانے کو جی چاہے۔۔اٹھائی زبان اور لگائی تالو کو۔۔۔خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ زبانی جمع خرچ سے ریجھ کر ہم نے شاہ خرچی شروع کر دی کہ اب اکاؤنٹ میں لاکھوں آنے والے ہیں !!!۔۔۔پر وہ دن اور آج کا دن کہ ہم سر پیٹ رہے ہیں ،زار زار خود ہی رورہے ہیں کہ نوحہ گر ساتھ رکھنے کی استطاعت نہیں۔۔کہ ہمارا بچا کچا بیلنس بھی فضول خرچی کی نذر نہ ہوجائے ۔۔اب کیا کہیں کہ ،
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
مگر وہ زبان۔۔۔جس پر ہر کائیاں اور سادہ لوح کو یقین آجاتا ہے۔۔ہائے غضب۔۔چھٹانک بھر کی۔۔۔بس ذرا دراز کرلمحہ بھر جلوہ دکھا۔۔لبوں کے پردے میں غائب ہوجاتی ہے اور پھر پورے جسم کو کیا۔۔۔پوری قوم کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔۔۔۔زبان دے کر پھرجانے والے۔۔۔ تو ڈال ڈال ہیں مگر اپنی زبان پر قائم رہنے والے خال خال۔۔کہ ان کا اصول ہوتا ہے۔۔۔پران جائے پر وچن نہ جائے۔۔کچھ فطرتاً کم سخن ،کم گو واقع ہوئے ہیں۔۔ان پر اقبال کی زباں بندی کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔۔کہ ان کی زبان بات کرنے کو ترسے۔۔۔بعض کی زبان جو کہہ نہیں سکتی ان کی آنکھیں کہہ دیتی ہیں۔۔اور سمجھنے والے بھی سمجھ جاتے ہیں۔۔یہ بھی شاید ٹیلی پیتھی کی ایک قسم ہے۔۔کچھ تو آنکھوں آنکھوں میں ہی بات کرلیتے ہیں۔۔واضح ہو وہ گونگے نہیں ہوتے بس ان کی خموشی گفتگو ہوتی ہے۔۔علامہ اس پر بہت پہلے روشنی ڈال چکے ہیں۔پتا نہیں کیوں ہر ساس کو اپنی بہو کی زبان سے شکایت ہوتی ہے۔۔کم بولے تو ،،گونگی ،، زبان کھولے تو زبان دراز۔۔پر صاحب ایک بات خدا لگتی کہوں گا۔۔۔کہ زبان چلانے میں خواتین کو خواہ مخواہ بدنام کیا جاتا ہے۔۔۔کیا سیاسی اسٹیج پر ماہرین لسانیات زبانی جمع خرچ کرتے نظر نہیں آتے ؟۔۔وہ ایسے اچھے دنوں کے خواب دکھاتے ہیں کہ آپ کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوں۔۔۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی