احساس محرومی میں اضافہ

ملک کے مختلف حساس اور ترقی وسہولیات سے محروم علاقوں میں احساس محرومی کی بڑھتی شکایات توجہ طلب معاملات ہیں محولہ علاقوں میں آواز بلند کرنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پرمشتمل ہے جنہیں اپنے حقوق کا علم ہے اور وہ حکومتی سرد مہری اور ناانصافی کے خلاف باقاعدہ اور منظم طریقے سے اجتماع اور احتجاج کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پوری طرح سرگرم ہیں جن سے دیگر نوجوان بھی ہوشیار اور متوجہ ہو رہے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب ملک کو ابتر معاشی مسائل جیسی مشکل کا سامنا ہے ملک کے حساس علاقوں میں احساس محرومی اورعوام میں بے چینی نہایت پریشان کن امر ہے بلوچستان میں حالات سنگین اور بدترین ہوتے جارہے ہیں گلگت ہو یاچترال ‘ ضم اضلاع ہوں یا صوبے کے پسماندہ ضلعوں سے اٹھنے والی آوازیں گوادرہو یاپھر سندھ عوام کے مسائل کابراہ راست تعلق ذریعہ معاش اورروزگار سے ہے اور وہاں کے عوام اپنے وسائل سے استفادہ کے متمنی ہیں ان مطالبات کوکوئی دوسرا نام بھی نہیں دیا جا سکتا سوائے اس کے کہ ان مطالبات کے حوالے سے ان میں پھیلنے والی مایوسی سے دیگر عناصر فائدہ اٹھا کر احساس محرومی کاشکار نوجوانوںاور افراد کوگمراہ کر رہے ہیں جس کاواحد حل ان کے جائز مطالبات پر توجہ ہے پسماندہ علاقوں کے عوام کوحقوق دینے کانعرہ ہرآمرو جمہوری دو ادوارمیں لگایا جاتا رہا فنڈزکا اعلان بھی ہوتا آیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کا عام آدمی ہر دورمیں محروم ہی رہا ہے اور اب بھی یہی صورت ہے اور ان علاقوں میں محرومی کے احساس میں شدت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام کو ان کاجائز حق نہیں دیا جاتا اوران کے وسائل پرقابض ہونے کی عملی کوشش کی جاتی ہے جس سے بے چینی پھیلنا فطری امر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی آواز سنی جائے اوران کو حقوق دے کرحقیقی طور پرمطمئن کرکے بے چینی کا خاتمہ کیاجائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ریاست اور حکومت ان معاملات کو دیگر انداز سے لینے کی بجائے اس بے چینی کی اصل وجوہات پرتوجہ مرکوز کرے گی اور جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور جومطالبات باربار پیش کئے جارہے ہیں ان پر توجہ مرکوز کرے گی اورآئین اور قانون کے مطابق شہریوں کے جو حقوق ہیں اور جن کا بار بار مطالبہ کیا جارہا ہے ان کی ادائیگی میں مزید تاخیر نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت