صرف ادراک نہیں عمل درآمد کی ضرورت

وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اقتدار میں ہوں پولیس آگے ہوتی ہے اور اقتدار سے باہر ہوں تو پولیس پیچھے ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درخواست کرتا ہوں کہ پرو ٹو کول استعمال نہ کریں، لمبے لمبے پرو ٹو کول دیکھ کر عوام گالیاں دیتے ہیں اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو سیاست چھوڑ دیں اور کوئی اور کام کریں۔ عوام مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اور یہ مشکلات کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بڑی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کی مراعات والے بل کو قومی اسمبلی منظور نہ کرے، اس غریب قوم کے ان حالات میں سینیٹ کا منظور کردہ بل کسی صورت درست نہیں ہے۔اہم مسلم لیگی رہنما اور وزیر دفاع نے اقتدار اور پروٹوکول کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیاہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں لیکن اس کی سنجیدگی کا علم اس وقت ہی ہوگا جب قومی اسمبلی میں اس کی حمایت و مخالفت کاسوال اٹھے گا اوراگر یہ بل منظور نہیں ہونے دیا گیا اور اسے منظور نہیں ہونے دیناچاہئے تب ان الفاظ کی صداقت اور حقیقت کاعلم ہوگا پولیس کو آگے لگانیوالے او رپیچھے لگانے والے دونوں کوئی او رنہیں اہل سیاست ہی ہیں جس کے باعث پولیس عوام کی نہیں خواص کی بن کر اپنا اصل فریضہ انجام دینے کی اہلیت ہی کھو چکی ہے اور اس کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں پولیس کو پروٹوکول اور مخالفین کامکوٹھپنے کے لئے بروئے کار نہ لایا جائے اور پولیس کو اس کے اصل فریضے کی ادائیگی تک محدود رکھا جائے تو پولیس کی ساکھ بحال اور کارکردگی میں اضافہ ممکن ہو گا مگر یہاں کہا کچھ اور جاتا اور کیا کچھ اور جاتاہے اس وقت ملک بھر میں پولیس تحریک انصاف کے کارکنوں کی بوسونگھتی پھر رہی ہے جن کارکنوںپر سنگین مقدمات ہیں اور ان کی فوٹیج اور ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں یا جن رہنمائوں کے خلاف ٹھوس بنیادوںپرمقدمات کاکافی وجہ ہونے کی بناء پر اندراج ہوا ہے وہ اپنی جگہ لیکن ان کے اہل خانہ خاص طور پر خواتین کو ہراسان کرنے کاکوئی قانونی وا خلاقی جواز بالکل نہیں حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بازی الٹی پڑنے میں وقت نہیں لگتا بہتری اسی میں ہے کہ پولیس کاغلط استعمال نہ کیاجائے اور پولیس حکام بھی غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کریں۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال