حالات ٹھیک نہیں

بظاہر امن وامان کی صورتحال تشویشناک نہیں لگتی لیکن جب صورتحال کا عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبے میں ابھی بھی حالات خاصے سنگین ہیں اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوامیں رواں سال کے پہلے 4ماہ میں دہشتگردی کے 309واقعات رپورٹ ہوئے۔ کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی )خیبرپختونخوا نے صوبے میں رواں سال کے پہلے چار ماہ کے دوران ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹ جاری کر دی ہے اس کے مطابق دہشتگردی کے زیادہ ترواقعات ڈیرہ ، بنوں اور پشاور ریجن میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ جنوری میں دہشتگردی کے 49 واقعات رونما ہوئے جبکہ گزشتہ سال اسی مہینے 33 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔فروری میں دہشتگردی کے 50 واقعات جبکہ گزشتہ سال فروری میں 24 واقعات رونما ہوئے تھے۔ اسی طرح ماہ مارچ میں 34 جبکہ ماہ اپریل میں دہشتگردی کے 42 واقعات رپورٹ کئے گئے۔ سی ٹی ڈی نے درج مقدمات کے تحت 124 افراد گرفتار کئے۔ چار ماہ میں انٹیلی جنس بیسڈ 711 آپریشنز میں 81 دہشتگردوں سمیت 158 افراد گرفتار کئے گئے جبکہ آپریشنز اور کارروائیوں کے دوران کالعدم تنظیم کے متعدد کمانڈر بھی مارے گئے جن میں 71 خطرناک ناک شدت پسند بھی شامل ہیں جن کے سروں کی قیمت لاکھوں روپے مقرر تھی۔دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں پولیس اور فوج دونوں کے جانی نقصان میں اضافہ قابل تشویش امر ہے محولہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ عسکریت پسندی کے واقعات اور عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافے کے رجحان میںاضافہ ہو رہا ہے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ملک بھر میں 271 عسکریت پسند حملے ہوئے، جن کے نتیجے میں 389 افراد ہلاک اور 650 سے زائد زخمی ہوئے۔ حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔خیبر پختونخوا کے قبائلی اوربندوبستی دونوں اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔کالعدم ٹی ٹی پی نے بعض حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس کے تناظرمیںسیکورٹی کی منصوبہ بندی کرنے والے اداروں کو انسداد دہشت گردی کے منصوبے بناتے وقت دو اہم چیلنجوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اولاً دہشتگردی کے خطرے کی مسلسل بدلتی ہوئی نوعیت اور دوم فوجی نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد پہلے چیلنج کے حملے بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ ساتھ پختون اکثریتی علاقوں میں ہوئے جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں علیحدگی پسند عناصرملوث ہیں ایک تبدیلی یہ بھی نظر آتی ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں اور ٹی ٹی پی نے ا یکا کر لیا ہے حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں بشمول پولیس افسران کو ایسی تربیت اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے جو اموات کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد دے سکیں۔ ریاست اتنی بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں کو کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں، انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں ان لوگوں کے حامیوں کے خلاف کارروائی بھی شامل ہونی چاہیے جو ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو بے رحمی سے نشانہ بناتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے