وائے ناکامی متاع ِ کارواں

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں ہر قسم کے علمی، اخلاقی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، نسلی، لسانی، مسلکی، مذہبی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ پتا ہی نہیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے، علامہ اقبال نے اس کی کیا خوب عکاسی فرمائی ہے،
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، بہت گہری نیند سو رہے ہیں اور نیند جتنی گہری ہو گی نیند سے اٹھانے والا اتنا ہی برا لگتا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہترین لوگ ہیں اور ہم جیسا پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے اور اس لئے صرف ہمیں ہی رہنے کا حق ہے، سب راستے اور سب طریقے تو ٹھیک ہیں لیکن چلنا صرف ہمارے طریقے پر ہے، کسی اور مذہب والے کو نہ اپنی عبادت گاہ بنانے کی اجازت ہے اور نہ مذہبی آزادی حاصل ہے، لوگ ناراض ہو جاتے ہیں جب میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ ہم سے ستر ماوؤں سے زیادہ محبت نہیں کرتا کیونکہ یہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے، کوئی حد نہیں ہماری خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی، سوال کرنے کی اجازت نہ منبرو محراب سے ہے اور نہ ہی سکول، کالج اور یونیورسٹی میں کسی سے، جو کہا ہے صرف وہی درست ہے، اسے یاد کریں اور لکھیں، سوال مت کریں، کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، یہ کس نے کہا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، ہماری کتابوں میں لکھا ہے اور ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ایک بڑھیا نبی کریمۖ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی، لیکن یہ بات بالکل جھوٹ ہے، کیا کریں ذہن سازی اس انداز میں کی گئی ہے کہ سوال کرنے کی اجازت ہی نہیں، اسی طرح ہمارے ہاں بچوں کو بڑی پابندی سے چھ کلمے نہ یاد کروائے جاتے ہیں، اور نہ صرف یاد کروائے جاتے ہیں بلکہ ان چھ کلموں کو یاد رکھنے والے کو ہی حقیقی مسلمان سمجھا جاتا ہے، اگر کسی کے اسلام اور ایمان کا امتحان لینا ہے تو اس کا معیار یہی چھ کلمے ہیں، نکاح کے وقت دلہے سے یہی کلمے سنے جاتے ہیں اور اگر کسی کو کلمے یاد ہوں تو اس کے ایمان پر شک کیا جاتا ہے،حالانکہ شریعت میں ان چھ کلموں کی اہمیت و فرضیت تو دور کی بات ہے ان کی یہ ترتیب اور ان چھ کلموں کے مکمل الفاظ ہی ثابت نہیں، کسی ضعیف حدیث میں بھی ان چھ کلموں کی موجودہ ترتیب یا فرضیت یا فضیلت ثابت نہیں، لیکن کیا کریں سوچ بچار کی اجازت نہیں ہے، اگلی سطور میں میں ایسی ہی چند اور مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، یہ روایت بالکل من گھڑت ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے، اور یہ کہ وطن کی محبت ایمان ہے، اور جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا یہ روایت بھی من گھڑت ہے، اسی طرح حضرت بلال کو آذان دینے سے روکا تو سورج طلوع نہیں ہوا، دوران نماز حضرت علی کے بدن سے تیر نکالنے والا مشہور قصہ بھی من گھڑت ہے، اسی طرح اویس قرنی کا اپنے دانت مبارک توڑنے والی روایت بھی من گھڑت ہے، اور عالم کے پیچھے ایک نماز چار ہزار چار سو چالیس نمازوں کے برابر ہے اور جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے یہ بھی من گھڑت باتیں ہیں، اسی طرح ماہ صفر یا ماہ رمضان کی بشارت دینے پر جنت کی بشارت دینا، من گھڑت ہے، ایسی کوئی حدیث ہے ہی نہیں، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اگر جھک جانے سے عزت کم ہو جائے تو قیامت کے روز مجھ سے لے لینا، من گھڑت ہے، اور میں ایک چھپا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا، یہ بھی من گھڑت ہے، شب قدر کے حوالے سے نوافل کی خاص تعداد یا خاص طریقے سے نماز پڑھنے والی روایات بھی من گھڑت ہیں، اسی طرح زنا قرض ہے، اگر تو نے اسے لیا تو ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہوگی، من گھڑت ہے، ہر نبی کو نبوت چالیس برس بعد ملی ہے، یہ بھی من گھڑت ہے، اور یہ بھی کہ آقاۖنے فرمایا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے فرما دیں تاکہ میری امت کو دوسری امتوں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے، اور یہ کہ درود پڑھنے پر اللہ ستر ہزار پروں والا پرندہ پیدا کریں گے جس کی تسبیح کا اجر درود پڑھنے والے کو ملے گا، من گھڑت ہے، اور جو شخص آذان کے وقت باتیں کرتا ہے اسے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا، اور فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنے پر روزی میں وسعت، اہل خانہ کے مابین تنازع نہ ہونا، اور ایمان پر خاتمہ، یہ سب فضائل من گھڑت ہیں، بے پردہ عورت جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی، اس کی سند نہیں ملتی اور مومن کے جھوٹے میں شفاء ہے، من گھڑت ہے، آقاۖ کا سکرات الموت میں جبرائیل سے کہنا کہ میری ساری امت کی سکرات کی تکلیف مجھے دے دو اور ایک عورت اپنے ساتھ چار اشخاص کو جہنم لے کر جائے گی، باپ، بھائی، شوہر، بیٹا، اسی طرح جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستانوں سے چالیس دن تک اللہ عذاب کو دور کر دیتا ہے، ان تینوں روایات کی سند نہیں ملتی، اور جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کا نام برکت حاصل کرنے کے لئے محمد رکھے تو وہ بچہ اور اس کا والد دونوں جنت میں جائیں گے، یہ بھی من گھڑت ہے، اور ایک گھڑی غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے، یہ بھی حدیث نہیں ہے، قارئین کرام ایسی من گھڑت اور خود ساختہ باتوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن بات وہی ہے کہ غوروفکر کرنے کی ترغیب دی ہی نہیں جاتی، قصے کہانیاں ہیں سنتے جاؤ اور سر دھنتے جاؤ، واہ واہ کرتے جاؤ، یاد رہے کہ آقاۖ کا فرمان ہے کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے، (بخاری )، متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہۖ پر جھوٹ بولنے والا شخص جہنمی ہے، اس کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اپنی تقریروں، تحریروں اور عام گفتگو میں جھوٹی، بے اصل اور من گھڑت روایتیں کثرت سے بیان کرتے رہتے ہیں، اور اب تو سوشل میڈیا نے مزید تباہی پیدا کر دی ہے، ہماری عوام بنا تصدیق کیے ایسی روایات کو سوشل میڈیا پر آئے دن شیئر کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان بے شمار جھوٹی اور من گھڑت روایات میں سے یہاں آپ کے سامنے چند مشہور روایات اور واقعات شیئر کیے گئے ہیں جو ہمارے کم پڑھے لکھے خطیب حضرات بھی اکثر بیان کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اکثر یہ روایات گردش کرتی نظر آتی ہیں، آپ سے گذارش کی جاتی ہے کہ کسی بھی بات پر یقین کرنے سے پہلے اس کے بارے میں ضرور چھان بین کر لیں، عربی کے ایک مقولے کا ترجمہ ہے کہ سوال آدھا علم ہے، اورجب تک بات کی مکمل تصدیق نہ ہو جائے، اسے آگے مت پھیلائیں۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟