”سائفر ایک حقیقت تھا”

امریکی تحقیقاتی ادارے ”دی انٹرسیپٹ” نے وہ سائفر حاصل کرکے پورے مندرجات دنیا کے سامنے لائے ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ برس سے پاکستانی سیاست کے تالاب کے ارتعاش میں پیدا کئے ہوئے ہے ۔جسے کسی نے سازش کہا تو کوئی اسے مداخلت کہنے پر مُصر رہا ۔کوئی تو سرے سے اس کے وجواد سے ہی انکاری رہا اور کسی نے دیکھے بھالے بغیر ہی یہ برسرعام یہ دعویٰ کر دیا ہونہہ یہ کیا خفیہ ہے اس کی ایک کاپی تو میرے پاس ہے کوئی پاس سے بولا صرف تمھارے پاس ایک کاپی تو میرے پاس بھی ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ سب سے پہلے ان دو پاکستانی معززین سے پوچھا جائے کہ وہ جو آپ کے پاس تھا وہ سائفر ہے اگر وہ آپ کے پاس تھا تو اب کدھر چلا گیا؟۔غرض یہ کہ اس کا مقصد سائفر اکا ڈاون پلے کرنا تھا تاکہ پاکستانی عوام اس کہانی سے آشنا اور آگاہ نہ ہونے پائیں ۔پاکستانی عوام اسے ایک معمول اور مذاق سمجھیں ۔حقیقت بھی یہی ہے صرف دو افراد کا معاملہ نہ ہوتا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی راہوں میں جا بہ جا ایسے سائفر پڑے ملتے ہیں جن کے ملنے پر پاکستان میں کوئی رنجور وملول ہو نہ کسی کی غیرت جاگی ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی سسٹم کو اس طرح کے کوسنوں اور طعنوں کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔گزشتہ دہائی میں جب امریکہ نے ڈرون حملوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کہرام مچار کھا تھا تو کچھ سرپھرے ان حملوں کو پاکستان کی عزت غیرت اور خودمختاری پر حملہ قرار دے کر ڈرون گرانے کے مطالبات کرتے تھے ۔پاکستان کے باکمال میڈیا اور بیانیہ ساز مشین نما دانشوروں نے اس سوچ کے حامل لوگوں کے لئے ایک طنزیہ نام ”غیرت بریگیڈ ” رکھا تھا ۔وہ بہت حقارت سے سرشام ٹی وی سٹوڈیوز میں غیرت بریگیڈ کی طنزیہ اصطلاح استعمال کرتے ۔جہاں عزت انا اور غیرت کے یہ میعارات ہوں وہاں سائفر جیسی باتیں معمول ہی قرار پاتی ہیں۔یوں لگتا ہے کہ اس سائفر کی حدت بطور پاکستانی جس شخص نے محسوس کی وہ صرف امریکہ میں مقیم اسد مجید خان تھا ۔عمران خان کا غم وغصہ تو بنتا ہی تھا کیونکہ وہ اس کا ہدف تھے مگر اسد مجیدخان ایک بہادر فرزند زمین کی صورت میں اس سائفر کہانی میں اپنے وطن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔وہ ڈونلڈ لو کے ہر اعتراض کا ایک جرات مند پاکستانی کے طور پر جواب دیتے نظر آتے ہیں اور انہیں سائفر کہانی کا حقیقی ہیرو اور تمغہ ٔ غیرت کا حقیقی حقدارقرار دیا جاسکتا ہے ۔امریکہ اس معاملے میں تردید نہ تائید میں چلمن سے لگا بیٹھا رہا ۔اب ڈیڑھ سال بعد امریکہ کے ایک ادارے نے سائفر حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے امریکہ کے انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کے درمیان طویل گفتگو کا پورا متن جاری کر دیا ہے۔ عمران خان اٹک جیل کی تنگ وتاریک کوٹھڑی میں قید ہیں کہ ان کا بیانیہ عالمی سطح پربول ہی نہیں رہا بلکہ چنگھاڑ رہا ہے۔آج وہ اپنے موقف کی سچائی کا جشن منانے پر قادر نہیں اور شاید انہیں خبر بھی نہ ہو کہ انہوںنے جیب سے جو کاغذ لہرایا تھا وہ آج عالمی سطح کا افسانہ بن چکا ہے اور دنیا میں ہر جگہ اس پر بات ہو رہی ہے ۔ دی انٹرسیپٹ کی یہ رپورٹ اس وقت دنیا بھر کا افسانہ ہے ۔دنیا کے تمام بڑے اخبارات ٹی وی چینلز اور تجزیہ نگار اس پر بات کررہے ہیں۔سائفر سونامی نے پاکستان کی سیاست میں جو سونامی برپا کر رکھا ہے اب وہ لہریں عالمی بالخصوص امریکی سیاست کے کناروں سے جا ٹکرائی ہیں ۔اسی لئے انٹرسیپٹ کی رپورٹ آتے ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کو ایک وضاحتی پریس کانفرنس کرنا پڑی ۔جس میں انہوںنے تسلیم کیا کہ امریکہ عمران خان کے دورۂ روس سے خوش نہیں تھا اور وہ اپنے تاثرات سے پاکستان کو آگاہ کر چکا تھا ۔سائفر کے مندرجات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مسٹر ڈونلڈ لو نے اسد مجید خان کو بتایا کہ عمران خان نے اپنے طور پر کسی مشاورت کے بغیر روس کا عین اس روز دورہ کیا جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا ۔مندرجات سے عمران خان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ڈونلڈ لو نے اسد مجید خان سے تحریک اعتماد کی بات بھی کی اور اس کے کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کے سارے گناہ معاف کرنے کا بھی کہا اور ناکام ہونے کی صورت میں امریکہ اور یورپ کے عتاب سے بھی ڈرایا ۔اس غیر سفارتی زبان اوربدتہذیبی پر مبنی انداز گفتگو پر ایک غیرت مند پاکستانی کے طور پر اسد مجید خان کا بھڑکنا بجا تھا اور اسی لئے انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی اس پر امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا جائے ۔پاکستان اور امریکہ کے پچہتر سالہ تعلق میں ایسے کڑے اور سخت مقامات جابہ جا آتے رہے ہیں مگر اس پر ردعمل بہت کم دیکھا گیا ۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو امریکی وزیر خارجہ نے ایٹمی پروگرام بند نہ کرنے کی صورت میں نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی ۔بھٹو چیختے چلاتے رہے مگر اسے ان کی ڈرامہ بازی اور مظلوم بننے کی کوشش سمجھا جاتا رہا یہاں تک وہ پھانسی پر جھول گئے ۔عمران خان کو تحریری طور پر دھمکی دی گئی اور اب یہ تحریر پاکستان اور امریکہ کے پچہتر سالہ تعلق کے اوپر لٹکتا ہوا مستقل ڈھول ہے اور جو زمانے کی ہوائوں سے بج کر یہ بتاتا رہے گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کس قدر عدم توازن ہے اور اس عدم توازن میں امریکہ مخالف جذبات کا پنپتے رہنا قطعی غیر فطری نہیں ۔جب بھی کوئی قوت کسی دوسرے پر بالادستی کو اس حد تک یقینی بنائے کہ اس کی سانس رکنے لگے تو فریق ثانی کا سانس بحال کرنے کے لئے کوششیں کرنااور غم وغصہ سے بھرا رہنا سب کچھ فطری ہوتا ہے ۔اس لئے عمران خان نے سائفر کو ڈی کوڈ کروا نے کے بعد ہوا میں لہرایا اور اس کے نیتجے میں پاکستانیوں کا شوق ووارفتگی سے آگے بڑھنا قطعی ناقابل فہم نہیں تھا ۔امریکہ سے بس اس تحریر کی غلطی ہوگئی اور یوں اپنی دھمکیوں کا ثبوت چھوڑ گیا ۔اب امریکہ کو بار بار اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اسے ایک آزاد اور دوست ملک کے ساتھ یوں دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنا چاہئے تھا ۔ذوالفقارعلی بھٹو کو دی جانے والی دھمکی اور جنرل مشرف کو نیم شب کو کیا جانے والے ٹیلی فون کا کوئی ریکارڈ نہ چھوڑنے والے امریکی عمران خان کے معاملے سائفر کے معاملے میں غلطی کر بیٹھے ۔اب امریکہ کو اندرونی طور پر اس رویے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا ۔پاکستان اور امریکہ کے تعلق کے بارے میں نئے سرے سے سوالات اُٹھنا شروع ہوجائیں گے ۔اب امریکہ بھی سازش اور مداخلت کے چکر میں اُلجھ کر رہ گیا ہے ۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے عمران خان کے دورہ ٔ روس پر ناپسندیدگی اور احتجاج کا اعتراف کرکے مداخلت تو تسلیم کرلی ہے مگر سازش سے وہ اب بھی انکاری ہے۔امریکہ سے آنے والی یہ گواہی پاکستان کی سیاست کو اب مزید متاثر کرتی رہے گی ۔سازش کی ڈور کے سرے کو ٹرمپ کی رخصتی پر احسن اقبال کے ٹویٹ کو امریکی سفارت کار کی طرف سے ری ٹویٹ کیے جانے میں تلاش کیا جا سکتا ہے جس میں احسن اقبال نے کہا تھا کہ ٹرمپ تو رخصت ہوا اب اسی طرح پاکستانی ٹرمپ (عمران خان ) کو بھی رخصت ہونا پڑے گا ۔اسلام آباد میں مقیم بے تاب امریکی سفارت کار نے جھٹ سے اسے ری ٹویٹ کرنے کے کئی گھنٹے بعد ڈیلیٹ کر دیا تھا ۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس