افغانستان اچھا ہمسایہ کیوں نہیں

افغانستان کے لئے پاکستان کے ا ہم سفارتی نمائندے کا یہ کہنا خلاف حقیقت نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) افغان طالبان کے زیرکنٹرول ہے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی رشتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔مشکل امر یہ ہے کہ افغانستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کو پاکستان کی سرحد عبور کرنے، تخریب کاری کی سرگرمیاں کرنے، قتل عام کرنے اور پھر واپس جانے کی بھی اجازت ہے۔افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے ”ایمبیسیڈرز لانج”کے ساتھ اس بارے میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے لیے پریشان کن ہے۔پاکستانی حکام کئی بار اشارتاً یا پھر نجی گفتگو کے دوران افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے گٹھ جوڑ کے بارے میں باتیں کرتے رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کسی سینئر اہلکار نے کھل کر اس بارے میں اس طرح کی بات کی ہو۔آصف درانی نے کہا، ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرے اور انہیں غیر مسلح کرے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، افغان طالبان اس ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، کیونکہ یہ دو طرفہ تعلقات کے لیے اچھا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ (افغان طالبان اور ٹی ٹی پی)ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔انہوں نے واضح طور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پاکستان کو پہلے ان دونوں کے تعلقات کے بارے میں غلط فہمی تھی۔درانی کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً6000کے قریب دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے سرگرم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان طالبان کے امیر نے پاکستان کے خلاف حملوں سے منع کرتے ہوئے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا۔ لیکن اس حکم کے باوجود بھی ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہے۔انہوں نے کہا، ان کے (طالبان)وزراء نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے ہیں۔ تو کیا ہم یہ مانیں کہ ٹی ٹی پی ان کے احکامات کی نافرمانی کر رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ بیعت جس کا ٹی ٹی پی نے طالبان کے سربراہ سے اعلان کیا ہے، باطل سمجھی جانی چاہیے۔ اگر یہ بیعت کالعدم قرار سمجھی جائے، تب تو ٹی ٹی پی کو سزا دی جانی چاہیے۔پاکستانی مندوب کی مفصل اور فکر انگیز گفتگو سے یہ نتیجہ اخذہوتا ہے کہپاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سرد مہری کی بڑی وجہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرپرستی ہے لیکن اس کے باوجود کابل کی عبوری حکومت ان عناصر سے تعرض نہ کرنے کی پالیسی پر کارفرما ہے جس طرح پاکستان اپنے ملک میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لئے سنجیدگی سے اقدامات اٹھا رہا ہے اصولی طور پر اب طالبان حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی سرزمین پر بھی مقیم ٹی ٹی پی کے کارندوں کو واپسیکی ایسی ہی ہدایت جاری کرے اس امر سے اب انکار کی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغانستان کی سرزمین برابر استعمال ہو رہی ہے اور پاکستانی نمائندے نے افغانستان میں مقیم افراد کی تعداد بھی بتا دی یہ افراد اگر خاموشی کے ساتھ افغانستان میں سکونت رکھتے اور پاکستان کے خلاف کسی قسم کی شرانگیزی کے منصوبے کا حصہ نہ بنتے تو صرف نظر کرنے کی گنجائش موجود تھی نیز طالبان حکومت کے امیر کی جانب سے جاری ہدایات کی پابندی کرکے کسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوتے تو بھی الگ بات تھی مگر ان کی سرگرمیوں سے خود طالبان حکومت کی دو عملی ثابت ہوتی ہے جہاں ایک طرف ان کوپاکستان کے خلاف حملوں سے منع کیا گیا ہے وہاں اس کی عملی خلاف ورزی پر ان کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا شکوک و شبہات کا باعث امر ہے پاکستان اس ضمن میں بار بار مختلف سطح پر نشاندہی کے مختلف ذرائع کا استعمال کرتا آیا ہے لیکن اس کے باوجود افغان حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے افسوسناک امر یہ ہے کہ اس طرح کا رویہ تو افغانستان کی سابقہ حکومتوں کی طرف سے بھی اختیار نہیں کیا گیا جن سے پاکستان کے ساتھ کوئی اچھے تعلقات نہیں ہوتے تھے اس کے باوجود وہ اس ذمہ داری کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے کا انٹرویو کابل کے خلاف واضح چارج شیٹ ہے جس پر جہاں ایک طرف کابل حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے وہاں دنیا کے ممالک کو بھی اس سے صرف نظر کرنے کی بجائے افغانستان کی حکومت پر زور دینا چاہئے کہ وہ دوحہ معاہدے سے انحراف سے بازآئے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی عالمی ذمہ داری پوری کرے کابل حکومت کو جتنا جلد ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی اہمیت کااحساس ہو گا اتنا ہی دونوں ملکوں کے حق میں بہتر ہوگا۔افغان حکمران جن پالیسیوں پرعمل پیرا ہیں وہ اپنی جگہ لیکن بین الاقوام میں یکطرفہ پالیسیاں اختیار کرنے کے نتائج کبھی بہتر نہیں نکلتے اسلامی امارت ہونے کی دعویدار مملکت کے حکمرانوں کے لئے اسلامی اخوت اور برادری اور ہمسایوں سے تعلقات بھی اسلام اور شریعت کے مطابق ہی استوار کرنی چاہئے اسلامی اصولوں کی رو سے کسی طور بھی آمادہ بہ فساد عناصر کوپناہ دینے کی گنجائش نہیں اور نہ ہی اسلام میں ہمسایہ ملک کی مخاصمت میں اپنے ملک کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کی کوئی گنجائش موجود ہے۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت