آئیں اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں

میں حال ہی میں قومی سلامتی اور اس سے متعلقہ مسائل پر پانچ ہفتوں پر مشتمل ایک اہم اور اعلیٰ درجے کی تربیتی ورکشاپ مکمل کرکے آیا ہوں، ورکشاپ کا بنیادی مقصد وطن عزیز کو درپیش مسائل کا درست فہم اور ادراک حاصل کرکے ان کے حل کی راہ کو ہموار کرنا تھا،ورکشاپ میں قومی ہم آہنگی اور ملکی ترقی سے متعلق تمام اہم عنوانات پر سیر حاصل بحث کی گئی، ورکشاپ کے مقررین میں صدر پاکستان، چیف جسٹس پاکستان، آرمی چیف پاکستان، چیرمین جوائنٹ چیف، تمام صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور گورنر شامل تھے، اس کے علاوہ ملک اور ملک کے باہر سے چوٹی کے اہل فکر و دانش نے ورکشاپ کے شرکاء کے ساتھ اہم ترین موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی، اہم موضوعات میں موجودہ عالمی منظر نامے کی تفہیم، ہمارے خطے کی صورت حال اور امن اور بھارت کا کردار، کشمیر کی تاریخ اور مستقبل، انسانی حقوق، ماحولیاتی تبدیلیاں، انتہا پسندی اور دہشت گردی، قومی ہم آہنگی میں ہمارے نظام تعلیم اور مذہب کا کردار، پاکستان کی معیشت اور کاروبار، سرمایہ کاری، پاک چین اقتصادی راہداری، پاکستان کا بجٹ، مستقبل کی جنگیں، حکومت، عدلیہ، پولیس، افسر شاہی، صحت، آبادی، موجودہ دور میں میڈیا کا کردار، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، قیادت وسیادت کے علاوہ اور کئی اہم موضوعات بھی شامل تھے، تربیتی ورکشاپ کے دوران شرکاء نے ملک کے تمام صوبائی دارالحکومتوں اور گوادر کے دورے بھی کئی اور وہاں کی اہم قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں، پانچ ہفتوں کی اس سیر حاصل بحث اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق میں وقتافوقتا معزز قارئین کے سامنے رکھتا رہوں گا، آج کے کالم میں بھی ایک اہم حوالے سے چند گزارشات آپ کے سامنے رکھتا ہوں، ورکشاپ کے آغاز میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ پاکستان کے مسائل کا حل تو ہمارے پاس موجود نہیں ہے، تاہم مسائل کیا ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے اس حوالے سے سوالات اٹھائے جائیں گے اور انہیں زیر بحث لایا جائے گا، کئی قسم کے مسائل سامنے آئے تاہم ان کی نوعیت ایک ہی تھی اور وہ پھر کسی وقت ذکر کروں گا، آخر میں ایک بات ہوئی کہ ٹھیک ہے کہ بڑے بڑے مسائل موجود ہیں لیکن منفی باتیں نہیں کرنی چاہیئے اور نہ ہی خود کو برا بھلا کہنا چاہیئے، بلکہ اچھی اچھی باتیں کرنی چاہیئے، مغرب بھی ایسا کرتا ہے کہ ہمیشہ ہماری منفی باتوں کو اجاگر کرتا ہے اور اچھی اچھی باتیں نہیں بتاتا، دیکھیں ہمارے ملک میں بہت بڑے خزانے ہیں، ہمارے پاس بہترین پہاڑی سلسلے ہیں، بڑے بڑے ، گلیشیر ہیں، اتنا وافر پانی ہے، بڑے بڑے صحرا ہیں، دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، بہترین مویشی ہیں، ہمارا شمار دنیا کے بہترین چاول ، گندم، کپاس، پیاز، دودھ اور مرغی پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے، اور مزے کی بات ہے یہ سارا کچھ ہم دنیا سے درآمد کر رہے ہوتے ہیں، پھر یہ کہ پاکستان قدرتی معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے، ہماری اہم معدنیات میں کوئلہ، نمک، جپسم، خام لوہا، کرومائیٹ، تانبا، سنگ مرمر، قیمتی پتھر، گیس اور خام تیل شامل ہیں، اس کے علاوہ ایسے معدنی ذخائر موجود ہیں جو کہ ابھی تک دریافت نہیں کئے جا سکے، بلوچستان میں تیل و گیس کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہونے کے شواہد پائے گئے ہیں، محتاط اندازے کے مطابق ان ذخائر کی مالیت دس ٹریلین ڈالر ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ان ذخائر کو نکالنے کی صلاحیت بھی موجود ہے یا نہیں، دنیا یہ قیمتی ذخائر نکال کر لے جا رہی ہے اور ہمارے نصیب میں صرف پیچھے چھوڑے گئے بڑے بڑے گڑھے ہیں، مسائل کا درست ادراک اور پھر ان کے حل کی کوئی تدبیر کرنا دانش مندی ہے، اچھی اچھی باتوں سے کچھ نہیں ہونے والا، مثال کے طور پر اگر کوئی بیمار ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اس کوئی کئی بڑی بڑی بیماریاں ہیں، ڈاکٹر اس سے کہے کہ دیکھیں آپ کی سانس چل رہی ہے اور آپ بھی چل سکتے ہیں، اچھی اچھی باتیں کریں اور گھر جائیں، ایسا کرنے سے مریض کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا، بروقت مسائل کا درست ادراک ضروری ہے۔
ایک اور مثال سے بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، ملک کا ایک بڑا حصہ اس وقت سموگ سے بری طرح متاثر ہے، معمولات زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں اور لوگوں کی صحت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، نہ اب بھارت کی صنعت کو الزام دینے سے کچھ ہو گا اور نہ بے کار کا واویلا اور فریاد کرنے سے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پورے ملک کی طرح ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، جہلم، کھاریاں، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور کے گردونواح میں بڑے پیمانے پر لہلہاتی فصلیں،ہرے بھرے درخت اور سرسبز زرعی زمین تباہ کی گئی ہے، باغات کو کس بے دردی سے تلف کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی گئی ہیں، کھیتوں، درختوں اور باغات کی جگہ اب صرف سیمنٹ، بجری اور سریے کے پہاڑ نظر آتے ہیں، کس تیزی سے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، دھواں چھوڑتی گاڑی کے خلاف کبھی کوئی قانونی کاروائی دیکھی ہے آپ نے، جب جس کا جہاں دل چاہا کارخانہ بنا دیا، جہاں دل چاہا کسی بھی چیز کو آگ لگا دی، اب دھواں اٹھتا ہے،سانس بند ہوتا ہے، گردوں، دل اور دمہ کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے تو شکایت کیوں کرتے ہیں، ہمارے لوگوں کی اوسط عمر کبھی ساٹھ اور ستر سال تھی اب تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے، اور ہم سب اس کے ذمے دار ہیں،حکومت بھی،عوام بھی، کس بے رحمی اور بے دردی سے ہمارے ہاں جنگلات کی کٹائی ہوتی ہے، ہے کوئی پوچھنے والا، اور یاد رہے کہ یہ درخت نہیں بلکہ ہم نے اپنی سانس کی ڈوریاں خود اپنے ہاتھوں سے کاٹی ہیں، سموگ تو چھوٹا عذاب ہے ہمارے اعمال تو اس سے بڑی مصیبت کے مستحق ہیں، اب چھٹیاں کریں یا سمارٹ لاک ڈاؤن لگائیں سموگ سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے، ہم اچھی اچھی باتیں کرتے رہے، سنتے رہے، پڑھتے پڑھاتے رہے اور ساتھ ساتھ یہ سب بھی کرتے رہے اور آج انجام ہمارے سامنے ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اچھی امید رکھنی چاہئے لیکن حقائق سے نظریں چرانے سے حقائق بدل نہیں جاتے، کبوتر آنکھیں بند کرکے یہ سمجھتا ہے کہ بلی اب اس کو نہیں دیکھ سکتی لیکن بلی بڑے آرام سے کبوتر کا شکار کر لیتی ہے، ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ کئی طریقوں سے مرض کی تشخیص کرتا ہے اور اس کے بعد علاج تجویز کرتا ہے، صرف اچھی اچھی باتیں کرکے مریض کو گھر نہیں بھیج دیتا ہے، سموگ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے، ہمارا معاشرہ ایسی کئی مثالوں سے بھرا پڑا ہے، اوراگر ہمارا رویہ ایسا ہی رہا کہ ہم حقائق سے یونہی صرف نظر کرتے رہے تو ہمیں ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اچھی اچھی باتوں سے زیادہ اچھے اچھے کام کریں۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز