عوامی نمائندگی کاحق کس کو؟

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا ہے کہ کسی کو سیاست کے میدان سے بے دخل کرنے کی پالیسی حکومت کی نہیں ہے اگر انتخابی عمل سے کسی کو روکا گیا تو تحقیقات کریں گے، ایک نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کوئی انہو نی چیز نہیں تھے ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی جس کی وجہ سے نو مئی کو پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا ؟،انہوں نے کہا کہ نو مئی میں ملوث افراد کو عوامی نمائندے نہیں ہونا چاہیے اور یہ بھی نہیں سمجھتا کہ پوری تحریک انصاف کو نو مئی سے جوڑا جائے، وزیراعظم نے کہا کہ اگر لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق شکایات آئیں گی تو اسے دیکھیں گے کسی کوانتخابی عمل سے روکا گیا تو اس کی تحقیقات کریں گے اور الیکشن کمیشن سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے، امر واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں جب آنے والے انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کئے جا رہے ہیں (جس کیلئے دم تحریر آخری دن ہے) مختلف مقامات سے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ایسی شکایات سامنے آرہی ہیں کہ اس کے امیدواروں سے بعض جگہوں پر کاغذات نامزدگی چھیننے کی وارداتیں ہوئی ہیں جبکہ کچھ حلقوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں،اب ان اطلاعات میں صداقت کتنی ہے اور الزامات کس قدر ہیں اس حوالے سے تحقیقات ضروری اور شکایات کا ازالہ لازمی ہے کیونکہ اپنے الزامات کی بنیاد پر تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس لئے وزیراعظم کو اس قسم کی شکایات کے حوالے سے ملنے والی خبروں کے بعد انتظار کرنے کی بجائے ان بیانات کا نوٹس لے کر صورتحال کی صداقت کا جائزہ لینے کا حکم دینا چاہیے ،کیونکہ ان الزامات سے نگران حکومت کی غیر جانبداری متاثر ہونے کا خدشہ ہے، اگرچہ اس قسم کی شکایات میں جس بھی جماعت یا جماعتوں کو لاحق ہیں ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ صرف زبانی کلامی اور سیاسی بیان بازی کے ذریعے سیاسی سکورنگ سے آگے جا کر تمام تر ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکومتی اداروں تک تحریری طور پر شکایات پہنچا دیں تاکہ اس کا بروقت تدارک کیا جا سکے ،جہاں تک تحریر کے انصاف کے سربراہ کے حوالے سے وزیراعظم کے خیالات کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف تحریک کے چیئرمین بلکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ یا دیگر اہم عہدے داران کو بقول وزیراعظم انہونی چیز قرار نہیں دیا جا سکتا نہ ہی کسی کو مخصوص پیرامیٹر کے تحت ملکی قوانین سے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے،اگر ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ قانون کے تحت سلوک روا رکھا گیا (جس پر اگرچہ سنجیدہ سوال بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں) اسی طرح میاں نواز شریف کے ساتھ تین بار مبینہ طور پر امتیازی سلوک روا رکھا گیا ،تو نو مئی کے واقعات کے تناظر میں بانی تحریک انصاف کے ساتھ ان کی مبینہ غلط پالیسیوں پر کیوں قانون کے ادارے میں رہتے ہوئے تادیبی کارروائی نہیں کی جا سکتی؟ ہاں ان کو اپنے اپ کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے قانون کا سہارا لینے سے نہ کوئی روک سکتا ہے نہ ایسا ہونا چاہیے، اور عدالتیں ان پر قائم مقدمات میں انہیں آئین و قانون کے تحت جس بھی سلوک کا مستحق قرار دیں یہ عدالتوں کا حق ہے ،البتہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث قانون شکنوں کے ساتھ نہ تو کسی قسم کی کوئی رعایت ہونی چاہیے نہ انہیں عوامی نمائندوں کے طور پر سیاست میں سرگرم ہونے کی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ نو مئی کے واقعات کھلم کھلا ملکی سلامتی کے خلاف بغاوت کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ازبس ضروری اس لئے ہے کہ اگر آج ان کو کسی بھی وجہ سے معاف کر دیا گیا تو آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کسی بھی صورت ممکن نہیں رہے گی اور جس کا جب جی چاہے گا ملکی سلامتی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوگا، یہ سوچ کر کہ اگر قانون حرکت میں آئے گا تو ”گروہی مفادات” کے تحت دباؤ لا کر جان چھڑا لی جائے گی ۔ان مبینہ مجرموں کو معافی دینے سے ملکی سلامتی ہمیشہ خطرے سے دوچار رہے گی اس لئے نہ صرف ایسے افراد کو قانون کے تحت اپنے انجام سے دوچار کرنا لازمی ہے بلکہ انہیں انتخابات میں شرکت سے روکنا بھی انتہائی ضروری ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے ہو لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے دیگر افراد پر جو قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں انتخابات میں شرکت پر پابندی لگانا بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی