کبھی کے دن ” بڑے ” کبھی کی ” راتیں ”

گزشتہ جمعتہ المبارک کے دن کا آغاز تحریک انصاف اور اس کی اسیر مرکزی قیادت بانی چیئرمین عمران خان اور سینئر وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کیلئے خوشگوار ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے د ونوں رہنمائوں کی سائفر کیس میں دس دس لاکھ کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی مگراسی شام الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان ”بلا” بھی واپس لے لیا۔ سائفر کیس میں درخواست ہائے ضمانت کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جہاں متعدد اہم سوالات اٹھائے وہیں بانی چیئرمین کی جانب سے ضمانت کے غلط استعمال کی صورت میں ٹرائل کورٹ کو ضمانت منسوخ کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیاہے کہ دوران سماعت دی گئی آبزرویشنز مقدمہ کی سماعت کو متاثر نہیں کریں گی۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران یہ سوال بھی کیا کہ ہر دور میں سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بظاہراس کا جواب بہت سادہ ہے وہ یہ کہ جب سیاستدان رائے عامہ پر بھروسہ کرنے اور انکے اعتماد و مینڈیٹ پر پورا اترنے کا فرض نبھانے کی بجائے جمہوری تقاضوں سے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدارحاصل کرنے کو ”نعمت عظیم” سمجھتے ہیں تو کسی اختلاف کی صورت میں یا اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کی تبدیلی کے باعث وہ عتاب ک شکار ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے ان مسلسل تجربات سے سبق سیکھنے کی زحمت نہیں کی بلکہ ”اسی عطار کے ”لڑکے” سے دوا لینے کے شوق کا بھوت اترتا ہی نہیں۔
پاکستانی سیاسی تاریخ جو سیاسی کم اور ریاست کے کْلی حاکمیت کی تاریخ زیادہ ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک وقت کے لاڈلے دوسرے وقت میں رائندہ درگاہ ٹھہرائے جانے کے باوجود لاڈلہ بننے کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ جمہوریت، ووٹ کو عزت دو ، سول سپر میسی، انقلاب، عوام کا حق حاکمیت یہ ساری باتیں صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ اپنے حامیوں کا لہو گرم رکھ کر ریاست کے اقتدار کْلی کی ڈوریاں ہلانے والوں کو متوجہ کیا جاسکے۔ سیاسی قیادت نے غلطیوں سے سیکھنے اور عوام پر حقیقی معنوں میں اعتماد کا راستہ اختیار کیا ہوتا تو آج پاکستان ایک مثالی جمہوری مملکت کی شناخت حاصل کرچکا ہوتا۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے تاریخ کا جبر کہیں یا اقتدار کے لئے دیوانگی کہ یہاں ہر سیاستدان مخالف کی سیاست اور اقتدار کی ارتھی اٹھوانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کاندھا پیش کرتے ہوئے شرماتا بالکل نہیں بلکہ اسے وسیع تر قومی مفاد میں ایک پیج پر ہونا قرار دیتا ہے۔ سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کے دوران استغاثہ کی قانونی ٹیم کے پاس سادہ سے سوالات کے جوابات بھی نہیں تھے ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ درخواست دہندگان کے وکلاء نے اٹھانا تھا۔ جہاں تک بنچ کے ایک رکن جسٹس اطہر من اللہ کے اٹھائے بعض سوالات اور دیئے گئے ریمارکس کا تعلق ہے تو عدالتی فیصلہ آجانے کے بعد فیصلہ چونکہ اب پبلک پراپرٹی ہے اس لئے یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعتوں کے دوران معزز جج صاحبان کو ”کریز” سے باہر جاکر کھیلنے سے اجتناب کرنا چاہیے ان کا کام سائل کو انصاف فراہم کرنا ہے نیک چلنی و معصومیت کے سرٹیفکیٹ تھمانا نہیں افسوس کے ساتھ یہ یاد دلانا پڑرہا ہے کہ اسی عدالت (سپریم کورٹ) نے ماضی میں ایک فوجی آمر کو آئین میں ترامیم کا شخصی حق عطاء کرتے ہوئے حلف کی عدم پاسداری کی تھی ، ستم یہ ہے کہ اس پر کبھی معذرت بھی نہیں کی گئی۔
اندریں حالات قانونی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ ”کریز” سے باہر جاکر کھیلنے کی وجہ سے ملکی نظام انصاف پر نہ صرف سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں بلکہ اب بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ عدالت کے سامنے سائل فقط سائل ہوتاہے اور استغاثہ استغاثہ۔ عدالت کا کام انصاف کی فراہمی ہے نیک چلنی کی اسناد جاری کرنا نہیں۔ سائفر کیس کی درخواست ضمانت میں استغاثہ کی کمزوریوں کا فائدہ درخواست دہندگان کو ملاہے تو یہ انصاف کے تقاضے پورے ہونے کاثبوت ہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو پارٹی دستور کے منافی قرار دیتے ہوئے انہیں ختم کرنے اور انتخابی نشان ”بلا” واپس لئے جانے پر پی ٹی آئی اوراسکے مخالفین و ناقدین کی آراء کا تعلق ہے تو یہ کسی بھی فیصلے پر مختلف آراء کا ہونااچھنبے والی بات ہرگز نہیں۔ پی ٹی آئی یقیناً اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرے گی ملک کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر اسے عدالت سے ریلیف مل جائے گا ،اس ریلیف میں یقیناً تحریک انصاف کے مؤقف کی مضبوطی کا بھی دخل ہوگا البتہ پی ٹی آئی کے ذمہ داران اور وکلاء کو یہ امر کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اس نے مختلف مرحلوں اور خصوصاً اکبر ایس بابر کی جانب سے حالیہ پارٹی الیکشن کو چیلنج کئے جانے کے جواب میں لمبی لمبی جذباتی تقاریر اور میڈیا ٹاکس تو کیں لیکن وہ اکبرایس بابر کے اس مؤقف کو رد نہیں کرپائے کہ ان کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کے فیصلوں کو عدالتوں نے اس وجہ سے کالعدم قرار دے دیا تھا کہ جماعت کے بانی ارکان میں سے کسی کو جماعت کی رکنیت سے محروم کرنے کی جو وجوہات پی ٹی آئی نے انہیں پارٹی سے نکالنے کیلئے مدنظر رکھیں وہ پارٹی سے زیادہ فرد واحد کے مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔
امید ہے کہ پی ٹی آئی کو اب یہ باور ہوگیا ہوگا کہ اکبر ایس بابر کے معاملے میں اس سے کئی غلطیاں ہوئیں۔ الیکشن کمشنر پر ذاتی پسندوناپسند کا الزام اس لئے سیاسی قرار پائے گا یا دیا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصے میں بعض فیصلوں کی بدولت ریلیف پانے والے سیاستدانوں نے ان فیصلوں کو انصاف کی بالادستی سے تعبیر کیا اور اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے بارے میں ان کا مؤقف منفی جذبات سے عبارت تھا۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ مناسب ہوتا اگر اس وقت یہ فیصلہ نہ دیا جاتا کیونکہ اس سے عام تاثر یہ پیدا ہوا کہ اس کا مقصد تحریک انصاف کوانتخابی عمل سے باہر رکھنا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کا یہ مؤقف کہ دوسری جماعتوں کے انتخابات پر الیکشن کمیشن نے اس طرح کا فیصلہ نہیں دیا بھی غلط ہے۔ الیکشن کمیشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے جماعتی انتخابات کا معاملہ زیرسماعت ہے گو اس معاملے کی نوعیت مختلف ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جماعتوں کے جماعتی انتخابات کے خلاف کسی جماعت کے رکن یا ارکان نے الیکشن کمیشن سے رجوع نہیں کیا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے جماعتی انتخابات کے عمل کو مانیٹر کرے تاکہ انتخابات اور نتائج ”چٹ منگنی پٹ بیاہ” کی مثال کے مصداق ہی نہ ہوں بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے دستور میں درج طریقہ کار پر کْلی طور پر عمل ہوتاکہ ”پانچ منٹی”پارٹی انتخابات کا فیشن ختم ہوسکے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ طرفین بالائی سطور میں عرض کی گئی معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تاکہ سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا نہ ملنے پائے اور کوئی سیاسی جماعت انتخابی عمل سے باہر نہ دھکیلی جاسکے۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی