نگراں وزیراعظم

ملک میں نظام عدل پر سنگین سوالات ہیں :نگراں وزیراعظم

لاہور: نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں نظام عدل پر بڑے سنگین سوالا ت ہیں،جب تک ہم ان سوالات کے جوابات تلاش نہیں کریں گے یہاں کسی کا محفوظ رہنا مشکل ہے۔
بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا ریاست کے چند اداروں سے مستفید ہوتے ہیں تو انہیں ابا کا درجہ دینا شروع کردیتے ہیں، اور جب مستفید نہیں ہوتے تو انہیں سوتیلا باپ بنالیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اصولوں کا اطلاق یکساں ہونا چاہیے۔‘قاسم کے ابا جب وزیراعظم ہوتے ہیں تو انہیں حمید کی اماں نظر نہیں آتیں‘ ریاست کے چند اداروں سے مستفید ہوتے ہیں تو انہیں ابا کا درجہ دینا شروع کردیتے ہیں، اور جب مستفید نہیں ہوتے تو انہیں سوتیلا باپ بنالیتے ہیں۔
معیشت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ تمام حکومتیں چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمرانہ دورحکومت ہو، ایک تسلسل کے ساتھ ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں 10 ہزار ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری ہوتی ہے،جس پر قابو نہیں پاسکے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ٹیکس سسٹم ڈیولپ کرنا پڑے گا، ہم سب ایک آئیڈیل اسکینڈے نیوین ملک میں رہنے کی خواہش کرتے ہیں مگر وہاں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کا تناسب 91 فیصد ہے‘جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح صرف 9 فیصد ہے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے طور پر مجھے فخر ہے کہ برسوں کے بعد ہم نے گذشتہ سہ ماہی میں اپنا ٹیکس ہدف پورا کیا‘ اگر ہم یہ تین مہینے میں کرسکتے ہیں تو پھر دوسری حکومتیں کیوں نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ تین مہینے میں ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل بنیادوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہورہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکوموتی ڈھانچے میں سنگین خامیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی آمدن اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق ہے‘تعلیم صحت اور دیگر سہولیات کے لیے ٹیکسیشن کا مربوط نظام ناگزیر ہے۔
اسموگ کی وجوہات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ماحولیات کے حوالے سے معاشرے کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں قوانین کا نفاذ تمام حکومتوں کا مسئلہ رہا ہے۔
فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کے طور پر سال نو کے آغاز کی تقریبات پر پابندی سے متعلق سوال کے جواب میں نگراں وزیرعظم نے کہا کہ اس فیصلے پر تنقید بھی ہوئی اور تعریف بھی کی گئی‘سال نو کی تقریب نہ منانے کا مقصد دنیا کو فلسطینیوں پر مظالم سے آگاہ کرنا تھا۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اس فیصلے سے ہم نے مغرب پر واضح کردیا ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن پراسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے‘ہم براہ راست اس جنگ میں ملوث نہیں ہیں اور نہ ہی میں چوبیس کروڑ عوام کو جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرسکتا ہوں مگر ہم ہر فورم پر فلسطین کے لیے ا?واز اٹھارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ جنگ بند ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اس مسئلے پر امریکا سے بات کی ہے، ہم نے دنیا کو بتایا ہے کہ فلسطین میں ظلم و تشدد سے ڈیڑھ ارب مسلمان اضطراب میں ہیں۔
بلوچ مظاہرین کے حوالے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ احتجاج قانونی حدود میں ہونا چاہیے۔
حکومت کو قانون کا نفاذ کرنا ہوتا ہے‘ اسلام آباد میں مظاہرین کو قانون کے مطابق روکا گیا، ریاست تشدد کی اجازت نہیں دے سکتی۔

مزید پڑھیں:  پشاور : ارباب نیاز سٹیڈیم تعمیراتی کام مکمل نہ ہونے کے باعث چارہ گاہ میں تبدیل