دجیل یا رہنما ‘فیصلہ آپ کے ہاتھ میں

2024ء کے انتخابات کے انعقاد بارے میں شکوک و شبہات کی فضاء کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات کا طبل بج چکا ہے اور سیاسی جماعتیں اور امیدوارطبلے بجانے حامیوں کونچانے اور ووٹرں کولبھانے قسم قسم کے نعروں کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔ سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے دجیل نما عوامی نمائندے اور خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتیں یہ تاثر دینے میں سبقت کی سعی میں ہیں کہ عوام کے مسائل کے حل کا چھومنتر بس انہیں کے پاس ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کو سرے سے ختم کرنے بجلی پانی گیس کی قیمتوں کو اعتدال پرلانے کے ساتھ ساتھ گھرگھر یہ سہولتیں پہنچانے کے دعوے سرفہرست ہیں کوئی تین سو یونٹ بجلی مفت تو کوئی ساڑھے تین سو یونٹ مفت بجلی دینے کی دعویدارہے اور حال یہ ہے کہ ان دعوئوں کی گونج میں بجلی اور گیس کی قیمتوں اور بقایاجات سمیت وصولی میں بھی تیزی آگئی ہے علاج اور مفت تعلیم کا سہانا خواب دکھایا جارہا ہے اور حال یہ ہے کہ صحت کارڈ مفت علاج کے بھاری بقایاجات کی ادائیگی نہ ہونے پرعلاج کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے اور یقین نہیں کہ آنے والی کوئی حکومت اسے بحال کرپائے ۔اس کے باوجود سہانے خوابوں کی پٹاری ہر طرف کھول دی گئی ہے ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ بس اسی کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ان کے پاس ایسی گیڈر سنگھی ہے کہ و وٹ اسے ہی دیا جائے کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لیں گے جبکہ عوام حیران و پریشان کھڑی ہے کہ ان کی سادہ لوحی کا آخر کب فائدہ اٹھایا جا تا رہے گا ان کے ساتھ یہ مشق آخر کب تک دہرائی جاتی رہے گی کب تک انہیں ووٹ کے تقدس کے نام پرلوٹا جاتا رہے گااور یہ سلسلہ کب تک ختم ہو گاشاید کبھی نہیں کم از کم بہت جلد اور مستقبل قریب میں بھی اس کا کوئی امکان نظر نہیںآتا باریاں لینے والوں نے بھی شراکت اقتدار کے مزے لوٹ کر سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے اور ایک دوسرے کو مطعون کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اب کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے مگر باربار کے تجربات اس امر پر دال ہیں کہ ایک دوسرے کو چور کہنا اور پیٹ پھاڑنے کی دھاڑ انتخابات کے ہونے تک ہی کا ہوتی ہے جب حکومت سازی کا وقت آئے گا توپھر مفاہمت کی سیاست شروع ہو گی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کرچارسدہ’ رائے ونڈ سے لے کر لاڑکانہ تک کے مداری اقتدار کی ڈگڈگی پرہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ناچیں گے۔ خیبر پختونخوا کی ایک نوزائیدہ جماعت کی حیثیت لوٹے اکٹھی کرنے سے زیادہ کچھ نہیں مگرشنید ہے کہ وہ فیورٹ ہیں آگے صوبے کے عوام کی قسمت ایک کے بعد ایک کے نئی شکل میں آکرعوام کو دھوکہ دینے کے طرزعمل کے باعث عوامی نمائندوں کی جھوٹ و افتراء مسلسل وعدہ خلافیوں کھوکھلی نعرے بازی اوردعوئوں کی وجہ سے آج عوام کی نظروں میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت پر محدود ہو گئے ہیں سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے اس لئے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعوئوں کی دکان سجاتے ہیں اوروعدوں کا نیا جال بنا جاتا ہے جس میں عوام پھنس جاتے ہیں بدقسمتی سے دعوئوں اور بڑھکیں مارنے میں ہمارے سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں عوام بے چارے کیا کریں انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کے دعوئوں کوسچ جانا مگر تن کے کپڑے بمشکل بچا پائے خوشحالی اور معیشت کی بحالی کے دعوئوں پربھی یقین کیا مگر قرضے ہی بڑھے ‘تبدیلی کی ڈگڈگی پر تو پرجوش ناچے مگرتبدیلی نہ آسکی اب سیاستدانوں کے پاس نعرے بھی نہیں رہے اور سیاست بھی کچھ زیادہ آلودہ ہو گئی ہے سیاسی میدان میں اب ہر کوئی اپنی مرضی سے نہیں اتر سکتا فی الحال تو یہ ہو رہا ہے آگے کی خدا جانے لیکن اب بہت ہو چکا سات دہائیوں سے لوگوں کے مسائل سو گنابڑھ چکے ہیںمگر ڈگڈگی پر نچانے والے اور ڈگڈگی پر ناچنے والے اپنی روش تونہیں بدلیں گے اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی انہیں اپنے ووٹ کی طاقت کاصحیح اندازہ ہونا چاہئے ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے عوام کے ووٹ کوعزت نہ تو سیاست دان دیتے آئے ہیں اور نہ وہ پس پردہ رہ کر سیاست کرنے والے گھوسٹ ‘ عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہو گی لوگوں کو اب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب وہ کسی کے جھانسے میں نہ آئیں گرگٹ جس سیاسی قبا میں ملیں ان کوپہچاننا ہے اس طرح سے ہی عوام کے ذریعے ان کے ووٹ کی عزت بحال ہو سکتی ہے عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دبائو ‘ رنگ ‘ نسل ‘ برادری کی بنیاد پر نہیں دیانت ‘ قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمائندے چننے ہوں گے ۔ ایسے لوگوں کوآگے آنا ہو گا جوعوام الناس کی حقیقی نمائندگی کے اہل اور دیانتدار ہوں جن کے پاس عوامی مسائل کے حل کا حقیقی عزم اور ٹھوس حل موجود ہو جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابل عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔میںاگرغلط نہیں تو اب تک تقریباً سبھی جماعتوں کو آزمایا جا چکا مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا اب بھی ایسا ہی لگتا ہے ایسے میں فطری طور پر ذہن کسی متبادل کی طرف جاتا ہے محولہ حالات کے باعث خود بخود ایک ایسی فضاء بن گئی ہے جس میں ممکنہ طور پر جماعت اسلامی ایک بہتر ترجیح نظر آنے لگی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مختلف دینی اور ملکی و عالمی معاملات اورمسائل کے حوالے سے جودبنگ طرز عمل اختیار کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں نیزایم ایم اے کے ساتھ مخلوط حکومت میں عوامی توقعات پرپورا اترنے کا تو دعویٰ نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے وزراء میں سے ایک پر محض شبہ کیا جاتا ہے جبکہ باقی وزراء پر الزامات بھی نہیں لگے میں اکثر سنتی ہوں اور لوگ بات بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ تحریک انصاف والے بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدوار نہ ہوئے تو بہترین ترجیح جماعت اسلامی ہی ہے بعض کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی بہترین انتخاب تو ہے لیکن جیت نہیں سکتی اچھی بات ہے کہ جماعت اسلامی نہ جیتے کیونکہ اس طرح سے دجیل اورطاغوت کے زیراثر سیاست اور سیاستدانوں کی مزاحمت کون کرے گا جماعت اسلامی ان کے خلاف تحریک مزاحمت کا جوکردار ادا کرتی آئی ہے یہی کردار مطلوب ہے باقی اقتدار توسیاست ہے اور ویسے بھی حصول اقتدار کے بعد بھی خالص اسلامی اور مخلص قیادت کوعالمی اسٹیبلشمنٹ چلنے نہیں دیتی مصر سے لے کر ترکی اوردنیا کے دیگر ممالک میں اس کی مثالیں موجود ہیں اسلامی مزاحمتی تحریکیں کسی نہ کسی صورت جاری رہیں تو اعلاء کلمة الحق کا فریضہ پورا ہوتا رہے گایہاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کے وہ دن آئیں جس کا وعدہ ہے اور بطور مسلمان یہ ہمارا یقین ہے کہ وہ دن آنے ہیں اور ہم نے اس وقت تک اپنی تحریک کو دیے سے دیا جلا کرزندہ رکھنا ہے۔
تعلیم یافتہ معاشروں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہاں عوام کوبخوبی احساس و ادراک ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک وقوم کے لئے کتنا اہم ہے ۔ ان کی ذرا سی غفلت خود ان کے ان کے معاشرے اورملک کے لئے کس قدر نقصان کا باعث بن سکتی ہے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ہر پاکستانی کو ہر ووٹر کو اپنا کردار ادا کرنا ہے اور ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہے حالات اس وقت ہی بدلیں گے جب خود کو بدلا جائے ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ ہمیں چومکھی لڑائی کا سامنا رہتا ہے ہمارے ملک میں ووٹ کی طاقت اورعوامی رائے کو ایسا دبایا گیا ہے کہ جس کے پاس یہ طاقت ہے خود وہ بھی یا تواس طاقت سے ہی نابلد ہے ‘ یا پھرمجبور ہے المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں قوم کی باقی صلاحیتوں کوجس طرح دبانے کا رواج ہے اسی طرح ووٹ کی طاقت کوبھی دبادیا جاتا ہے عوام محرومی کا شکار ہیں اس کی جہ شاید یہ ہو کہ ہمارے ہاں اقتدار ووٹ لے کر حاصل نہیں کی جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے سمجھوتے کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا ہے اور اب بھی بظاہر تو انتخابات ہونے جارہے ہیں لیکن آنکھیں اسی گیٹ پر لگی ہوئی ہیں جوچار نمبر کے طور پر مشہور ہے جو ہمیشہ سے اقتدار بانٹنے اور بٹانے کے کام کرتا آیا ہے بس فرق یہ آیا ہے کہ بوقت ضرورت اب کانوں کو ہاتھ لگایا جاتا ہے کہ ہماری توبہ جو اب سیاست میں مداخلت کریں مگرعملی طور پر صورتحال سب کے سامنے ہے اصل طاقت تواب بھی وہی ہے اس کے باوجود بھی بہرحال ووٹ کی اہمیت کم نہیں ہوتی اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہے ہم میں سے اکثرلوگ اس صورتحال سے مایوس ہو کرووٹ ہی نہیں ڈالنے جاتے اور کہتے ہیں کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہو گا ایسا بالکل نہیں ووٹ کوعزت نہیں ملتی یہ اپنی جگہ لیکن اس سے بھی صرف نظر نہیں ہونا چاہئے کہ ایک جمہوری ملک میں ہر منصب کا فیصلہ ووٹ سے کیا جاتا ہے لہٰذا اسے ضرور استعمال کرنا چاہئے ۔دین اور دنیا دونوں اعتبار سے ووٹ کی ایک اہمیت ہے اس لئے انتخابات میں ووٹ اور اس کا صحیح استعمال کس طرح ہو اس تعلق سے ہمیں بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہئے دنیا کے دیگر جمہوری معاشروں کی طرح ہم بھی ہر پانچ سال بعد اس مشق سے گزرتے ہیں باقی دنیا میں تو انتخابات امن و خوشحالی اور تبدیلی کے تازہ جھونکے لے کرآتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان کا نتیجہ ہمیشہ برعکس نکلتا ہے اس کی دیگر وجوہات اورمداخلت کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باشعورمعاشروں میں عوام اس ہتھیارکو سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اورصحیح اہل اور دیانتدار لوگوں کو منتخب کرکے ان کوپانچ سال کاموقع دے کر خود نتائج کا انتظار کرتے ہیں ان کے نمائندے ان کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے تن من کی بازی لگا دیتے ہیں ہمارے ہاں صورتحال برعکس ہوتی ہے ہمارے عوام نااہل افراد کے جھانسے میں آتی ہے اور پھر پانچ سال گیس ‘ بجلی ‘ پانی ‘ مہنگائی ‘ لوڈ شیڈنگ ‘ پولیس گردی وغیرہ وغیرہ کے حوالے سے جلسے جلوس اور احتجاج میں لگ جاتے ہیں مگر ان کی ایک نہیں سنی جاتی اب وقت ہے کہ جو لوگ سالہا سال اپنے مسائل و مشکلات کے حوالے سے مشوش رہتے ہیں نظام اور بدعنوانی کوکوستے رہتے ہیںاب ان کے پاس زریں موقع ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں اور پرامن و مثبت تبدیلی کے لئے اہل امیدواروں کا ساتھ دیں چوروں اور نوسربازوں کی مخالفت کرکے ان کوبے نقاب کریں ووٹ نہ صرف آپ کی اورآپ کے اردگرد رہنے والے لوگوں کی آواز ہے بلکہ آپ اور آپ کے بچوں کے مستقبل کا تعین بھی اسی سے ہوتا ہے اگراب بھی آپ نے سترسال سے عوام کا لہوچوسنے والوں ہی کا ساتھ دینا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سنیں کہ ”جس شخص نے کسی ظالم کا ساتھ دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظلم کر رہا ہے تو وہ اسلام کے دائرے سے نکل گیا۔( طبرانی)

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال