مہنگائی کے جن سے پنجہ آزمائی

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے صحت کارڈ پلس کے تحت یکم رمضان سے صوبے کی سو فیصد آبادی کیلئے مفت علاج معالجے کی سہولیات بحال کرنے کاعمل صوبے کی نئی حکومت کی پہلی بڑی کاوش ہے۔وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ صحت کارڈ پلس اسکیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اصلاحات کی جائیںگی تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ عوام کو پہنچ سکے اور اس کے غلط استعمال کا مکمل تدارک کیا جاسکے۔ بعدازاں وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت ماہ رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے متعلق ایک اہم اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو رمضان کے مہینے میںعوام کو بھرپور ریلیف دینے کے لئے خیبر پختونخوا میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں دوسرے صوبوں سے کم کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ضلعی انتظامیہ ماہ مقدس میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو قابو رکھنے کے لئے متحرک رہے اور افسران کی فیلڈ میں دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ کوئی بھی چیز سرکاری نرخ نامے سے زائد میں فروخت نہ ہو۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ تمام دکانوں کے باہر سرکاری نرخنامے کاغذ کی بجائے پینافلیکس پر آویزاں کئے جائیں اور ان نرخ ناموں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔دریں اثناء ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کی آمد کے باعث سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے پھلوں کی قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی جس کے باعث شہری مہنگے داموں اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں رمضان قریب آتے ہی ان میں مزید اضافہ تو معمول کی بات ہوتی ہے۔ ایک جانب وزیر اعلیٰ کی ہدایات اور کمشنر پشاور کے احکامات اور دوسری جانب سرکاری مشینری کا ٹس سے مس نہ ہونا جب اس طرح کی عملی صورتحال سے عوام کوواسطہ پڑے گا توایسے میں حکومت مخالف عناصر اپنی جگہ خود حکومتی جماعت کے حامیوں کا بھی عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہارفطری امر ہوگا ۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت عوام کو مہنگائی سے ریلیف دے لیکن اس کی حقیقت پسندانہ طور پر توقع نہیں کی جا سکتی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی تو خواہش ہے کہ ان کے صوبے میں اشیائے صرف کی قیمتیں دوسرے صوبوں سے کم ہوں لیکن عملی طور پراس کی بھی وصال یار فقط آرزو کی بات نہیںکے مصداق توقع نہیں ایسے میں لے دے کے سرکار ی نرخنامے پر عملدرآمد ہی وہ واحد قابل عمل اور معقول راستہ رہ جاتا ہے جس کے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگرعملی طور پر اشیائے خوردنی کی اضافی قیمتوں کی وصولی اور نرخنامے کو پس پشت ڈالے جانا کوئی پوشیدہ امر نہیں اگر کسی کے علم میں نہیں تو وہ متعلقہ سرکاری اہلکار ہی ہوسکتے ہیں جنہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہوتی ہے وزیراعلیٰ اگر ا ن کی آنکھیں کھولنے کے لئے چند ایک کو عبرت کا نشان بنا دیں تبھی دوسروں کو عبرت ہوگی۔گزشتہ ہفتے ہی انہی کالموں میں نشان دہی کی جا چکی ہے کہ کس طرح شہر میں ساڑھے نوے گرام کی روٹی پچیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور سرکاری نرخ سے فی روٹی دس روپے اضافی قیمت پر فروخت ہو رہی ہے مگر کسی کے کانوں میںجونک تک نہ رینگی جب وزیر اعلیٰ کے احکامات کے باوجود بھی یہ صورتحال برقرار رہے تو پھر سرکاری مشینری ہی پر خود وزیر اعلیٰ کے سخت احکامات کو ہوا میں اڑانے کا الزام نہ لگے تو کس پر لگے گا۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر پینا فلیکس پر اشیاء کی قیمتوں کو آویزاں کرنا کافی نہ ہوگا بلکہ اصل بات ان پر عملدرآمد کی ہے اس ضمن میں وزیر اعلیٰ اگر سنجیدہ ہیں تو پرائس ریویو کمیٹیوں کوفعال بنانے ، قیمتوں کے تعین کے بعداس پر عملدرآمد کرانے کے لئے سول سوسائٹی اور سرکاری نمائندوں پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دیں اور روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کا دفتر اس عمل کی مانیٹرنگ کرکے شکایات سنی جائیں اورجہاں جہاں شکایات کا ازالہ نہ ہو اور سرکاری نرخنامے کی پابندی نہ ہو رہی ہے سیکرٹری سے لے کر مارکیٹ معائنہ کے ذمہ دار جملہ افسران و اہلکاروں سبھی کی جواب طلبی کی جائے اور تنبیہ جاری کی جائے دوسری مرتبہ محکمانہ سزاہونی چاہئے اور تیسری مرتبہ غفلت کے ارتکاب کی صورت میں سخت تاددیبی کارروائی ہو تب جا کر کہیں بہتری کی توقع ہے ۔ صحت کارڈ سہولت کی بحالی کاچیلنج قبول کرنے کے بعد اس کے لئے فنڈز کی فراہمی ہی مسئلہ نہیں بلکہ اس عوامی سہولت کے غلط استعمال کی سختی سے روک تھام بھی ہر قیمت پر یقینی بنانا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  تنگ دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو