وزیر اعلیٰ شکایات سیل

صوبے کے عوام کی مشکلات سے آ گاہی اور ان کے حل کے ضمن میں وزیر اعلیٰ شکایات سیل کا اجر ا ء احسن عمل ضرور ہے لیکن اسے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر چلانے کی اس لئے ضرورت ہوگی تاکہ یہ ماضی کی طرح محض دکھاوا اور خانہ پری بن کر نہ رہ جائے، اس کا انحصار اکثر سیل کے انچارج پر ہوتا ہے کہ وہ ملنے والی شکایات کے حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے، شاذو نادر ہی کوئی امر وزیر اعلیٰ کے علم میں لایا جاتا ہوگا ،ایسے میں متعلقہ سرکاری اہلکار بھی اسے ایک روایتی مرکز شکایت کے سرکاری کام ہی کا درجہ ہی دیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ عوام کی شکایات کا ازالہ نہیں ہوتا اور عوام اس سطح کے حکومتی عہدیداروں سے بھی مایوسی کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں ،اگر اس سیل کو مثالی طور پر چلانا ہے تو پھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو کبھی کبھار اچانک خود موقع پر ملنے والی شکایات کا خود نوٹس لے کر متعلقہ حکام سے براہ راست جواب طلبی کا طریقہ کار اپنانا ہوگا تاکہ متعلقہ حکام اس سیل کی وساطت سے ملنے والی شکایات کو سنجیدہ لینے پر مجبور ہوں، نیز وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرح سوشل میڈیا اور دیگر عوامی فور مز کا دن کے کسی حصے وقت نکال کر آ گاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اگر ایک واٹس ایپ نمبر مخصوص کرکے ذاتی طور پر عوامی مشکلات اور مشکلات سے براہ راست آ گاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ان کا وزیر اعلیٰ ہاؤس میں مقیم ہونے کے باوجود صوبے کے عوام سے رابطہ ماضی کی طرح منقطع نہیں ہوگا اور سر کاری حکام کو بھی ہر وقت یہ دیھان رہے گا کہ ان کی شکایت کسی وقت بھی حاکم وقت سے ہوسکتی ہے ،جواب دہی کا یہ احساس خاصا مؤثر رہے گا ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کو بھی اس امر کا احساس ہوگا کہ اقتدار نے ان کے اور عوام کے درمیان زیادہ خلیج حائل نہیں کی۔وقتا فوقتاً میڈیا پر عوامی مشکلات کے حوالے سے مواد پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کا طریقہ کار اپنایا جائے اور عوامی شکایات کو سنجیدگی کیساتھ لیا جائے تو محولہ رابطے کا بہتر استعمال ممکن ہوگا بصورت دیگر اس یکطرفہ ٹریفک کا کوئی فائدہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت