خیبر پختونخوا کے دبنگ وزیر اعلیٰ سے دست بستہ گزارش

صوبہ خیبر پختونخوا غیور اور غیرت مندوں لوگوں کا مسکن ہے ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ اس وقت بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے جب ان کی حکومت نہیں تھی ، پھر یہ قوم ان کے ساتھ کھڑی رہی جب ان کی حکومت تھی اور اب پھر ان کے ساتھ کھڑی ہے جب وہ جیل میں ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی یہ تیسری مسلسل حکومت ہے ۔ گزشتہ دو حکومتوں نے صوبہ کی بیوروکریسی کو بے پناہ اختیارات اور مراعات دی ہیں ۔ایسی مراعات جن کا تصور دنیا کی ترقی یافتہ ممالک اور امیر ترین ممالک میںبھی نہیں ہے ۔ اگر بیوروکریسی حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کررہی ہے تو ان کو ان کی ضرورت کے مطابق عزت و مراعات دینا ایک اچھا عمل ہے ۔ مگر بعض اوقات جب مراعات حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو پھر لوگ اس کا بہت ہی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک مسئلہ آج کے کالم کا موضوع ہے ۔ خیبر پختونخوا میں قیمتی گاڑیاں سرکاری اہلکاروںکو دی گئی ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے صرف پشاور شہر میں یہ تعداد چالیس ہزار تک چلی گئی ہے اس لیے کہ اب نمبر پلیٹ اے بی میں چل رہے ہیں یعنی اے جس میں دس ہزار گاڑیاں آتی ہیں ، پھر اے اے اور اس کے بعد اے بی ہرسیریل میں دس دس ہزار گاڑیاں آتی ہیں۔ یہ گاڑیاں ان افسران کو اس لیے دی جاتی ہیں کہ وہ اپنے ملازمتی ذمہ داریاں ان گاڑیو ں میں بیٹھ کر پوری کریں گے ۔ اور ہر گاڑی کے ساتھ ایک ڈرائیور بھی ان کو دیا جاتا ہے جو اس گاڑی کو چلاتا ہے ۔اصولی طور پر جس افسر کو گاڑی دی جاتی ہے وہ خود بھی اسے چلانے کا مجاز نہیں ہوتا ۔
لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ یہ سرکاری گاڑیاں سرکاری ڈیوٹی کی جگہ ان افسران کے بچے اور رشتہ دار ہر جگہ چلاتے نظر آتے ہیں ۔ ہمیں یونیورسٹی میں کافی عرصے سے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ افسران کے بگڑے بچے اور رشتہ دار یہ سرکاری گاڑیاں لے کر یونیورسٹی کیمپس آتے ہیں اور سارا دن کیمپس میں دندناتے پھرتے ہیں کبھی ڈرفٹنگ کرتے ہیں ، کبھی ان گاڑیوں پر سکریچینگ کرتے ہیں ۔ اور اپنے اوباش ساتھیوں کو ان گاڑیوں میں بیٹھا کر معصوم طالبات بچیوں کو پوری یونیورسٹی کیمپس میں ہراساں کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہوتا ہے اور اکثر نشے میںبھی ہوتے ہیں ، یہ ان سرکاری گاڑیوں میں اونچی آواز میں میوزک لگا کر یونیورسٹی کا ماحول خراب کرتے ہیں ۔ یہ چونکہ بااثر سرکاری ملازمین کے بچے یا رشتہ دار ہوتے ہیں اس لیے پولیس بھی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ اور کوئی پروفیسر اور شریف انسان ان کو منع کرے تو یہ اس کی بے عزتی کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی گاڑیاں بھی روزانہ کیمپس کے ماحول کو خراب کرنے آتی ہیں جو ان افسران نے سپردداری پر اپنے یا اپنے رشتہ داروں کی نام کی ہیں ۔یہ وہ گاڑیاں ہیں جو پولیس ، ایکسائز، یا کسٹم نے کسی مقدمے میں پکڑی ہیں یا نان کسٹم پیڈ ہیں ۔ یوں یونیورسٹی کا کیمپس اب ایسی جگہ بن گئی جہاں یہ اوباش کھلے عام یونیورسٹی اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔مگر ملک کا مجبور و غلام قانون ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اس حوالے سے سینکڑوں مرتبہ اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی ہیں یہاںتک اخبارات کے اس پر ایڈیٹوریل بھی چھپے مگر کسی نے اس پر ایکشن نہیں لیا ۔ یہ گاڑیاں صرف پشاور کے افسران کی نہیں ہیں ۔ مرکز میں تعینات ، دوسرے صوبوں میں تعینات اور دوسرے ضلعوں میں تعینات افسران کی گاڑیاں بھی اس میں شامل ہیں ۔ یہ اوباش بگڑے بچے نہ صرف خود تعلیم کو توجہ نہیں دیتے بلکہ یہ اپنے ساتھ سینکڑوں اپنے دوسرے ہم جماعت دوستوں کو کلاس روم سے نکال کرسارادن ان کو بھی اس عمل شریک کرتے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام اور ڈسپلن پر بُرا اثر پڑ رہا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ اوباش نوجوان کھلے عام نشے کا بھی استعمال کرتے ہیں ۔
یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں بے جا مراعات اور عیاشی کا سامان ان کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے ۔ اب ان کو روکنا یونیورسٹی کے انتظامیہ کے بس میں نہیں ہے اس لیے کہ گزشتہ دس ماہ سے یونیورسٹی میں سیکیورٹی دینے کے لیے چوکیدار ہی نہیں ہیں ۔ جو تھے ان کو نکال دیا گیا اور جو پرائیویٹ فرم کسی نے ہائر کی تھی اس کو بھی دس مہینے ہوگئے ہیں ختم کردیا گیا ہے ۔ اور کچھ چوکیدار اس عرصہ میں ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اس لیے پوری پشاور یونیورسٹی بغیر کسی سیکورٹی کے چل رہی ہے ۔ اس لیے اس کے درخت لوگ کاٹ کر لے جارہے ہیں ، اس کی دیواروں سے اینٹیں بھی نکال کر لوگ لے جارہے ہیں ، سینکڑوں کی تعداد میں رکشوں نے بھی یونیورسٹی کیمپس کو پیر ودہائی اڈا بنا دیا ہے ۔ سینکڑوں کی تعداد میں بھیک مانگنے والے صبح کیمپس میں آجاتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ سینکڑوںکی تعداد میں گاڑیاں سڑکوں پر پارک کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان سڑکوں پر سے گزرنا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے ۔ کیمپس میں چوریاں معمول بن گئی ہیں ۔ سیکورٹی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ہزاروں کی تعداد میں آوٹ سائیڈرز رہ رہے ہیں ۔ یوں یہ کیمپس جس پر چار یونیورسٹیاں ہیں شہر ناپرسان بن چکا ہے ۔ جناب علی امین گنڈاپور صاحب آپ ینگ بھی ہیں اور دبنگ بھی ہیں ۔ آپ سرکاری گاڑیوں کا یہ غیر ضروری استعمال ایک آرڈر سے ختم کرسکتے ہیں ۔ اور ساری سپرداری پر دی گئی گاڑیاں بھی واپس منگوا سکتے ہیں ۔ اور صوبہ کے افسران کو پابند کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑیاں اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو نہیں دیں گے اور قانون کے مطابق صرف ڈرائیور ہی گاڑی چلا سکے گا ۔ اور گاڑی صرف ڈیوٹی کیلئے استعمال ہوگی ۔اور کسی بھی دوسرے ضلع کی گاڑی پشاور میں نہیں چلائی جاسکے گی ۔ جو ڈیوٹی پر گاڑی پشاور آئے گی اس کے ان اور آؤٹ کا ریکارڈ بمع میٹنگ یا کام کے حکم نامہ کے ساتھ رکھا جائے گا اور ہر مہینے یہ ریکارڈ متعلقہ سکریٹری کے دفتر بھیجا جائے گا جس کو وہاں چیک کرکے ہر مہینے کلیرنس دی جائے تو اس سب سے ہماری آپ کی بچیاں جو ان بگڑے بچوں کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہیں اور تعلیم چھوڑ رہی ہیں وہ سکون سے علم حاصل کرسکیں گی اور آپ کو دعائیں دیں گی اور یونیورسٹی کیمپس کا ماحول پھر تعلیمی ماحول میں تبدیل ہوگا۔
آپ ضرور سرکاری افسران کو مراعات دیں مگر پھر دنیا کے مہذب معاشروں کی طرح انہیں پابند بھی کریں کہ وہ ان کاغلط استعمال نہ کریں ۔ دنیا بھر میں حکومتیں صرف پولیس کے مخصوص اہلکاروںکو جو پیڑولنگ کی ڈیوٹی کرتے ہیں گاڑیاں دیتی ہیں ۔یہ وہ ممالک ہیں جن کی جی ڈی پی ہم سے پچاس ہزار گنا زیادہ ہے ۔ ہم مقروض ملک ہیں اور ہم نے ہزاروں قیمتی گاڑیاں ان کو دی ہوئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ڈرائیور اور تیل کا خرچہ بھی ہے جو اربوں روپیوں میںبنتا ہے ۔ جو کسی بھی طرح سے مناسب عمل نہیں ہے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنے دور میں مزید گاڑیاں نہ خریدیں اور جو اضافی گاڑیاں ہیں وہ ان سے واپس لیں ۔ اس لیے کہ ایک گاڑی تو افسر دفتر لے کرجاتا ہوگا اور جو اضافی ہیں وہ ان کے بچے اور رشتہ دار لے کر یہ سب کچھ کررہے ہیں ۔یعنی ایک افسر کے پاس ایک سے زیادہ جو گاڑیاں ہیںوہ ان سے لیکر نیلام کردیں صوبہ کے خزانے میں پیسے بھی آئیں گے اور مزید خرچوں سے بھی بچ جائیں گے ۔کچھ سرکاری گاڑیوں کے سرکاری نمبر پلیٹ ہٹا کر اس پر فینسی پرائیویٹ نمبر لگا کر بھی یونیورسٹی کا ماحول خراب کیا جارہا ہے۔ان سارے غلط کاموں کو آپ روک سکتے ہیں ۔اصلاحات کا آغاز کر دیں اور غیر ضروری اور پرتعیش اخراجات پر قابو پائیں ۔اس لئے کہ تیسری مرتبہ بھی اگر یہ کام آپ نہیںکرپائے تو شاید اس صوبہ کے لوگ مایوس ہوجائیں گے۔ ایک چھوٹی سی گزارش یہ بھی ہے کہ صوبے کی تمام سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کے شیشے سیاہ کرنے پرپابندی لگا دیں ۔ یونیورسٹی کیمپس پر اوباش نوجوان گاڑی کے شیشے سیاہ کرکے گھوم رہے ہوتے ہیں اور ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں اوباش لوگوں کو کچھ بھی کرنے کی اجازت ہے ۔اور معصوم طالبات کو ان سے بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگر ہم نے مدینے کی ریاست کی طرف جانا ہے تو پھر ان بچیوںکو تحفظ فراہم کریں ۔ یہ سب کچھ پختونوں کے صوبہ کے دارالخلافہ پشاور کے یونیورسٹی کیمپس پر ہورہا ہے ۔ اور یہاں سے سالانہ تیس ہزار سے زیادہ بچے اور بچیاں پڑھ کر صوبہ کے دیگر شہروں میں جاتے ہیں ۔ وہ کیا سیکھ کرجائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی