وفاق سے واجبات وصولی کی حکمت عملی

صوبہ خیبر پختونخوا کے واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے وفاقی حکومت کا رویہ گزشتہ کئی برس ”نامناسب” قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا ، خصوصی طور پر صوبے میںپیدا ہونے والی پن بجلی کے معاملات کو وفاق اور اس کے متعلقہ اداروں نے کبھی ہمدردانہ طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت محسوس کرنا کجا ،الٹا پن بجلی کی آمدن کو اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ادا کرنے کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالنے کی حکمت عملی کے تحت اس پر قانونی جنگ کوبلاوجہ طول دینے کی کوششیں ہی کی ہیں ، اگرچہ اس حوالے سے نہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ادائیگی کا حکم جاری کیا بلکہ صدرمملکت کی جانب سے اس فیصلے کو ضمانت بھی مہیا کی گئی مگرماضی میں جھانک کردیکھا جائے تو واپڈا نے ادائیگی کی التواء میں رکھنے کے لئے کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ اور کبھی کسی اور بہانے سے صوبہ خیبرپختونخوا کے حصے کی ادائیگی روکنے کی حکمت عملی سے معاملے کوطول دینے کی کوششیں کیں ، اس کے علاوہ قدرتی گیس کی مد میں صوبے کے بقایاجات بھی مکمل ادائیگی کی راہ تک رہے ہیں جبکہ تمباکو سیس کی آمدنی کے حصے پربھی سوال اٹھتے رہے ہیں ۔ سابقہ قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونے کے بعد ان اضلاع کے حصے کی رقم صوبے کو منتقل نہیں ہوئی ، کچھ یہی صورتحال صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کاحصہ 19.64 فیصد بنتا ہے جبکہ صوبے کو این ایف سی کا 14.16فیصد دیا جارہا ہے ، اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ روز وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی صدارت میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس میں صوبے کے بقایاجات کی وصولی کے حوالے سے وفاق کے ساتھ رابطہ کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کی حکمت عملی پرغور و خوض کیا گیا وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو صوبے کے مالی معاملات وفاق کے ساتھ اٹھانے کے لئے ہدایات دیں اور کہا کہ ایک ماہ کے اندر اندراس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کرکے پلان آف ایکشن مرتب کیا جائے جبکہ وفاق کے ساتھ جڑے صوبے کے مالی معاملات کا کیس موثرانداز میں پیش کرنے کے لئے تمام متعلقہ دستاویزات مکمل رکھی جائیں ، انہوں نے کہا کہ صوبے کے واجبات اور آئینی حقوق کے حصول کے لئے تمام دستیاب آئینی اور قانونی فورمز پربھر پورآواز اٹھائی جائے گی ، وفاقی حکومت کے ساتھ معاملہ مؤثر انداز میں اٹھانے کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے ، علی امین گنڈا پور نے واضح کیا کہ وفاقی سے شنوائی نہ ہونے کی صورت میں عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا۔ جہاں تک وفاق کے ذمے صوبہ خیبر پختونخوا کے بقایاجات کی ادائیگی کا تعلق ہے تواس حوالے سے ماضی میں مختلف ادوار میں قائم صوبائی حکومتوں نے اپنی سی کوششیں کر دیکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر بدقسمتی سے یہ تمام کوششیں کارگر ثابت نہ ہو سکی ، اس سلسلے میں بطور خاص ایم ایم اے حکومت نے صوبے کے بقایاجات وصولی کے حوالے سے بھر پور تیاریوں کے ساتھ اس دور کے صوبائی اسمبلی کے حکومتی اورحزب اختلاف کے ارکان پرمشتمل ایک جرگہ تشکیل دے کر (تب تک) پانچ ارب روپے سالانہ پر منجمد ہونے والے پن بجلی منافع کو بڑھانے کے لئے بھر پور کوششیں کیں، یہاں تک کہ بجٹ سے پہلے اس دور کے وزیر اعلیٰ کو منافع بڑھا کر آٹھ ارب کرنے کا عندیہ دیاگیا اور صوبائی حکومت نے صوبائی بجٹ میں پن بجلی منافع آٹھ ارب دکھاتے ہوئے ترقیاتی پروگرام ترتیب دیئے مگرعین وقت پراضافی منافع دینے سے انکار کیاگیا ، اس کے بعد آنے والی اے این پی حکومت نے بھی معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے بھر پور کوششیں کیں مگر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی بس معمولی اضافہ سے صوبائی حکومت کو ٹرخا دیاگیا چونکہ ان ادوار میں وفاق میں کسی اور جماعت کی حکومت ہوتی تھی اور صوبے میں دوسری جماعتیں برسراقتدار ہوتی تھیں اس لئے صوبے کواس کے آئینی حقوق کے حصول میں دشواریاں پیش آتی تھیں مگرحیرت اس وقت ہوئی جب مرکز اور خیبر پختونخوا میں ایک ہی جماعت یعنی تحریک انصاف برسراقتدار تھیں اور تب کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کواس دور کے وزیر اعظم عمران خان بھی ٹرخاتے رہے ، زبانی طور پرصوبے کے آئینی حق کے مطابق بقایاجات کی ادائیگی کے وعدے ریکارڈ پر ہیں مگرعملی صورت اس کے برعکس تھی ، اب جبکہ صوبائی حکومت نے ایک بار پھر اس معاملے کو وفاق کے ساتھ اٹھانے کے لئے بھر پور تیاریاں شروع کر دی ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ صوبے کے جائز آئینی ، قانونی حقوق کے تحت بقایاجات کی ادائیگی کی راہ میں وفاق سابقہ ادوار کی طرح روڑے اٹکانے کی پالیسی اختیار نہیں کرے گا اور صوبہ خیبر پختونخوا کے حصے کی رقم ادا کرکے صوبے کی ترقی میں تعاون کرے گا۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات