فیٹف کا ڈھول آئی ایم ایف کے ہاتھ

پاکستان لہولہان بھی ہے اور سراپا سوال بھی ”میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں ”۔معیشت کا خانہ خراب ، سیاست بدحال ،سماجی تقسیم میں اضافہ ۔ایک طرف حکمران خاندان جو اب نجیب ابن نجیب کی عملی تصویر بن چکے ہیں تو دوسری طرف عوام جو غلام ابن غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔طاقتور قوتوں کا فرمان ہی آئین اورقانون بن کر رہ گیا ہے۔اصل آئین اور قانون کہیں خلائوں میںگم ہو گیا ہے ۔75 برس کے بعد بھی پاکستان کا سب سے بڑا رواج اور قانون ”وقت گزارو ” جسے پنجابی میں ڈنگ ٹپائو کہاجاتا ہے ہو کر رہ گیا ہے۔ہر طاقتور کا عرصہ اقتدار کسی بڑی مشکل اور آسانی سے گزرنے کو قومی مفاد کا نام دیا گیا ہے۔آج کا قومی مفادآنے والے کل کا لطیفہ بنتا ہے اور بیتے ہوئے کل کا قومی مفاد آج کا افسانہ بن چکا ہے۔بس ایک دھوبی گھاٹ ہے جہاں کل کے قومی مفاد کے مغائر کام کرنے کے جرم میں سزاوار ٹھہرائے جانے والے دُھل دُھلا کر بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایسے لاتعداد واقعات اور کردار ملتے ہیں جو ایک دور میں قومی مفاد کے خلاف کام کرنے کے جرم کے سزاوار ٹھہرے تو وقت کی ہوائیں بدلتے ہی وہ معتوب سے محبوب بن گئے ۔آج کی پی ڈی ایم ٹو حکومت کا قیام ان بدلتے ہوئے معیارات کا چلتا پھرتا اشتہار ہے ۔میمو گیٹ سے ڈان لیکس اور اس سے پرے طیارہ سازش کیس تک قومی مفاد کے مخالف آج ایک گلدستے کی مانند قومی مفاد کے نگہبان اور ترجمان بن کر سامنے آرہے ہیں۔صدر مملکت آصف علی زرداری چند ہی برس قبل اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے بیرون ملک سدھار گئے تھے اور آج وہ خراماں خراماں ایوان صدر میں داخل ہوچکے ہیں۔ان سب رویوں کے باوجود اگر ملک نے کوئی مثالی تو کیا غیر مثالی اور معمولی ہی ترقی کی ہوتی اور دنیا کی قوموں میں اس کا کوئی بہتر مقام ہوتا تو یہ سب کچھ گوارا تھا ۔صدام اور قذافی کے نظام نے لوگوں سے آزادیاں چھین لی تھیں مگر انہیں خوشحال معاشرے اور قانون کی سخت حکمرانی کا نظام دیا تھا ۔ہمارے ہاں تو نہ قانون کی حکمرانی اور نہ ترقی بلکہ مسلسل تنزل کا سفر ہی جاری ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فرد ملک سے زندہ بھاگ نکلنے کی طلب اور تمنا میں گُھلا جا رہا ہے۔کئی دہائیوں تک ملک میں ٹو پارٹی سسٹم رائج ہے ۔میثاق جمہوریت کے بعد اس ٹو پارٹی سسٹم نے یک جان وقالب سسٹم میں ڈھلنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں متبادل کا خلاء پیدا ہونا شروع ہوا تھا پی ٹی آئی نے پُر کرنا شروع کیا تھا ۔ٹو پارٹی سسٹم پر پہلی پہلی کنکریاں مارنے کا آغاز قاضی حسین احمد اور طاہر القادری نے شروع کیا تھا ۔جنہوں نے اپنے حلقہ ہائے اثر میں چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے فلسفے کو جڑ سے اکھاڑ دیا تھا ۔دھرنے گرفتاریاں اور جواب میں فیک بیانیے کردار کشی اور الزام تراشی کے نئے انداز نوے کی دہائی کے اوائل سے شروع ہوتے ہیں ۔بعد میں عمران خان نے اسی مہم کو آگے بڑھایا یہاں تک میثاق جمہوریت میں ” دونوں ایک ہیں”کی فلاسفی اور الزام حقیقت بن کر سامنے آیا ۔اب تو من وتو کی تمیز ہی ختم ہوگئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے بعد پی ڈی ایم ٹو کی حکومت نے نوے کی دہائی کے دوجماعتی نظام کو یک جماعتی بنا دیا ہے ۔اس سے طاقت کا پہلے سے بھی بڑا خلا پیدا ہونے کا امکان ہے ۔اب تو ہم بھارت سے موازنہ اورمقابلہ کرنے سے بھی محروم ہو تے جا رہے ہیں۔ہم سے 75 برس میں مطالبہ یہی ہوتا تھا کہ بھارت کی ہمسری کا خیال ترک کرکے بنگلہ دیش ،افغانستان ،نیپال ،بھوٹان سے مسابقت کریں اور ہمارا اصرار تھا کہ ہم مسلم برصغیر کے نمائندہ ہیں اور ہمارامقابلہ بھارت سے ہی رہے گا ۔اب بات بہت آگے نکل گئی ہے ۔بھارت بہت آگے نکل گیا اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے ہیں ۔نریندر مودی نے چند دن قبل دعویٰ کیا تھا کہ 2047 میں جب بھارت اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منائے گاتو وہ مکمل طور پر ترقی یافتہ اور آتمانر بھر اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہوگا۔اسی طرح بھارت کے وزیر داخلہ امیت شا نے بھی دعوئوں سے بھرپور ایک کہانی سنائی ہے کہ بھارت دنیا کی پانچ کمزور معیشتوں سے اب دنیا کی پانچ مضبوط معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔اس سال کے آخر میں بھارت چار ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گا۔اگلے برس بھارت اپنا خلائی سٹیشن قائم کرے گا ۔اگلے دوبرس میں بائیں بازو کی انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل کرلے گا ۔اس بار انتخابات میں نریندرمودی نے اپنے اوپر جبر کرکے پاکستان کے تذکرے سے ہی منہ موڑ لیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پاکستان خود اپنے بوجھ تلے دب رہا ہے تو اب اس کا ذکر کیا کرنا ۔نریندر مودی نے اس کے متبادل کے طور پر رام مندر اور کشمیر کو استعمال کرنا شروع کیا ہے۔دوسری طرف پاکستانیوں کو مصلحت آمیز جھوٹا خواب دکھانے والا بھی کوئی نہیں ۔ پاکستان کا خواب چھوٹا ہو کر رہ گیا ہے ۔آج پاکستانیوں کا خواب یہ ہے کہ کسی مخیر ملک کی طرف سے اس کے قومی خزانے میں اتنی امداد آئے کہ آئی ایم ایف کے تازیانے کی تکلیف ناقابل برداشت نہ ہوکیونکہ آئی ایم ایف کی ڈومور کی ہر صدا عام فرد کی سماعتوں پر گراں ہی نہیں گزرتی بلکہ چھلنی کرتی ہوئی گزر جاتی ہے ۔گزشتہ دو دہائیوں میں ڈومور کی صداکار بدلتے چلے آرہے ہیں ۔پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈومور کا ڈھول امریکہ براہ راست بجا کر پاکستان کو چڑاتا تھا ۔بعد میں یہ ڈھول ایف اے ٹی ایف کو منتقل ہوا پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال کر کچھ بڑے فیصلے کروا لئے گئے اور پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا گیا اور یہ ڈھول آئی ایم ایف کو منتقل ہو گیا۔آئی ایم ایف کے ڈومور کا مطلب عام آدمی پر مہنگائی کا ایک اور بم گرنے کے مترادف ہے ۔ ماضی کے ڈومور حکمران طبقات کے لئے ہوتے تھے مگر آئی ایم ایف کے ڈومور کا ہدف پاکستان کا وہ عام اور بے تقصیر شہری ہے کہ جس کا پاکستان کی معاشی اور سیاسی بربادی میں رتی برابر دخل نہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی