مراعاتستان

اس ملک میں جو کام مسلسل ہوا ہے اور جس میں دنیا بھر سے ہم نے زیادہ ترقی کی ہے وہ ہے مراعات دینا ۔ جو جتنی بڑی کرسی یا اختیار کا مالک ہے اسے وہ وہ مراعات حاصل ہیں جو فراعین مصر کو بھی اپنی خدائی میں میسر نہیں تھے ۔ ملک پر اس وقت 131ارب ڈالربیرونی قرضہ چڑھ چکا ہے اور اس کے حکمران مزید قرضوں کے لیے تگ و دو میں ہیں اور روزٹی وی اور اخبارات کی سب سے بڑی شہ سرخی یہ ہوتی ہے کہ فلاں ملک سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ مل گیا ہے اور فلاں ملک نے پاکستان کا قرضہ رول اوور کردیا ہے ۔ اس خبر کو ملک میں سب سے بڑی خوشی کی خبر سمجھا جاتا ہے ۔ اگلے برس سے ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوگا ۔ ملک میں کارخانے تقریباً بند ہوگئے ہیں ۔ یہاں 35 فیصد لوگ غربت کی اتنہائی نچلی سطح پر ہیں۔ ملک میں انتظام چلانے کے لیے لاکھوں کا عملہ ہے ۔جن کو امریکہ اور یورپ کے سرکاری ملازمین سے دس گنا زیادہ مراعات دی گئی ہیں مگر وہ جس جس کام کے لیے مامور ہیں اس میں رشوت لے کر اس کو عام آدمی کے لیے ناقابل حصول بنا رہے ہیں ۔ دنیاکی قرض دار حکومت کے ملازمین کے پاس لاکھوں گاڑیاں ہیں ، وہ تنخواہوں کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر الاونس لیتے ہیں ، ان کو سرکاری پروٹوکول اور تمام وسائل پر کامل دسترس حاصل ہے ۔وہ ان سب کا استعمال نہ صرف اپنے لیے کرتے ہیں بلکہ ان کے خاندان اور یار دوست بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ہر شہر اور ہر پرفضامقام پر ان کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں اعلیٰ ترین سہولیات سے مزین ریسٹ ہاوسز ہیں ، گالف کورسز ہیں ، اور ان میں ان کی خدمت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین ہیں ۔ یہاں کسی نہ کسی طرح کسی عہدے پر پہنچنے والے اپنے لیے تاحیات مراعات حاصل کر لیتے ہیں ۔ دنیا میں پولیس لوگوں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے یہاں ہر صاحب اختیار کے پاس درجنوں کی تعداد میں پولیس کے جوان ان کے ذاتی محافظوں کے طور پر ہوتے ہیں ۔ وہ ریٹائرڈ بھی ہوجائیں تو ان کے ساتھ رہیں گے۔ حالانکہ اس وقت ملک میں امن و آمان کی صورتحال ایسی ہے کہ پولیس افسران کو بھی سڑک پر ڈیوٹی دینی چائیے ۔ یہاں سب سے زیادہ مراعات لینے وہ ہیں جن کا کام انصاف کرنا تھا ، سہولت پہنچانا تھا حفاظت کرنا تھا ۔ خدمت کرنا تھا ۔ نظام کو درست رکھنا تھا ۔ نہ تو اس ملک میں انصاف ہے نہ کوئی سہولت دینے والے ، نہ حفاظت کرنے والا اور نہ ہی خدمت کرنا والا اس کے باوجود یہ سب لوگ مراعات پر مراعات لیے جارہے ہیں ۔ مراعات کا سلسلہ صدر مملکت سے شروع ہوکر چھوٹے انتظامی بابو تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ اپنی ذاتی تشہیر پر کھربوں روپے خرچ کردیتا ہے ۔ اس وقت بھی رمضان کے مہینے میں لوگوں کو چند کلو آٹا دیا جاتا ہے اور اس کی تشہیر پر بیس ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔ حکومت میں آتے ہی دوستوں ، سہیلیوں اور عزیزوں کے ساتھ سرکاری گاڑیوں اور پروٹوکول میں ایسے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے وہ کسی ملک کے دورے پر ہوں ۔ اپنے دفتر جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایک گاڑی کے ٹائر بدلنے کے لیے ڈھائی کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔ یہاں پی آئی اے نوے ارب کا نقصان کرتی ہے اور اس کے بعد بھی اربوں روپے کے مفت ٹکٹ بھی بانٹتی ہے ۔ ملک میں نصف سے زیادہ بجلی چوری ہوجاتی ہے اور دس فیصد سے زیادہ بجلی ملازمین اور مراعات یافتہ طبقے کو مفت میں دی جاتی ہے جبکہ سالانہ بجلی کا انتظام کرنے والا محکمہ کئی ہزار ارب روپے کا نقصان کرتی ہے ۔ اس ملک میں سینکڑوں ٹی وی چینل اور اخبارات ہیں جن کو حکومت روزانہ کے بنیاد پر اپنی تشہیر کے لیے اربوں روپے کے اشتہارات دیتی ہے لیکن کچے کے علاقے میں چند سو ڈاکوؤں کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔اس ملک کو خیرات لے کر چلانے اور لوگوں کو خیرات دے کر اس کا کریڈیٹ لینے کا دنیا میں واحد مرکز کیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ خیرات میں دئیے جانے والے بے نظیر انکم سپورٹ کے اسی نوے ارب روپوں سے اگر ہنرسکھانے کا انتظام کیا جائے تو پاکستان بھی بنگلہ دیش کی طرح خود کفیل ہوسکتا ہے ۔ بے روزگاری کم ہوسکتی ہے ۔ مگر ہم ایسا نہیں کریں گے ۔ اگر اس ملک کو مسائل سے نکالنا ہے تو سخت فیصلے کرنے ہوںگے ۔ تمام مراعات چاہے وہ جس جس کو بھی مل رہی ہیں وہ فوری ختم کرنا ہوں گے اور ہمیں دنیا کی طرح ملک کا انتظام چلانا چاہئیے جہاں جو کوئی کسی بھی حیثیت میں کام کرے اسے صرف اس کا معاوضہ ملے ۔ باقی سب کچھ وہ اپنے پیسوں سے کرے ۔ یہاں اپنے عہدہ اور رتبے کے مطابق تنخواہ بھی ملتی ہے ۔ اس پر درجنوں مالی اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں اور لوگ ان منصوبوں اور اختیارات کا استعمال کرکے کرپشن بھی کرتے ہیں اور ملک کو لوٹتے بھی ہیں ۔ ایسے میں ملک کیسے ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ یہاں تعلیم صحت اور عوامی سہولیات کے لیے جو بجٹ رکھا جاتا ہے اس سے دو ہزار گنا زیادہ پیسے ہم اشرافیہ کو مراعات دینے کے لیے رکھتے ہیں ۔ وہ اشرافیہ جو اس ملک کے ساتھ مخلص ہی نہیں ہے ۔ہمیں اس ملک کو مراعاتستان سے پھر پاکستان بنانا پڑے گا ۔ جیسے فرانس ، چین اور بنگلہ دیش نے کیاہے ۔ اس ملک میں جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ، بلڈروں ، پیروں ، وڈیروں اور سیاست دانوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا ۔ اکانومی کو ڈیجیٹل کرنا ہوگا ۔ اور امداد کی جگہ تجارت کا انتظام کرنا ہوگا ۔ سٹے بازوں ، ذخیرہ اندوزوںاور نظام کو پیسوں کی مدد سے کنٹرول کرنے والوںکا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی ۔ اس لیے کہ اس مراعات یافتہ طبقے کی عیاشیوں کے لیے غریب پاکستانیوں کا مزید خون نہیں نچوڑا جاسکتا ۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو پھر امداوں اور قرضوں سے بھی کام نہیں چلے گا ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت