سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری جنگ بندی کی قراردادکی منظوری کے باوجود غزہ میں جاری اسرائیل حماس تنازع میں کوئی کمی نہیں آسکی، اسرائیلی فوجیوں کی غزہ پٹی میں کارروائیاں جاری ہیں ۔واضح رہے کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ پہلی قرارداد ہے جس میں لڑائی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے قرارداد کی منظوری پر ردعمل دیتے ہوئے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد کو فوری نافذ ہونا چاہیے، ایسا نہ ہوا تو یہ ناقابل معافی ہوگا۔ حماس کی جانب سے سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونیکا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ قرارداد دونوں طرف سے قیدیوں کے فوری تبادلے کے لیے تیار ہونے پر زور دیتی ہے۔ اسرائیل نے قرارداد ویٹو نہ کرنے پر اسرائیلی وفد کا دورہ امریکا منسوخ کر دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے قرارداد ویٹو نہ کرنا ماضی کے موقف سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اس اقدام سے حماس کے خلاف جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ غزہ میں7اکتوبر2023سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک32ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 74ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا میں 13ہزار بچے بھی شامل ہیں، یہ پچھلے چار برسوں میں کسی بھی عالمی تنازع میں ہلاک بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسرائیل پورے غزہ کو ملیامیٹ کرچکا ہے اور مکانات، اسپتال، مساجد، پناہ گاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ اسرائیل کے مربی ملک امریکہ کے اسرائیل کی بے جا حمایت سے پیچھے ہٹنے کے تاثر کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم وقتی طور پر ایسا ہوا ہے جس پر تل ابیب سیخ پا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے اس حوالے سے سخت بیان بھی جاری کیا گیا ہے امریکہ کا یہ اقدام بعد از خرابی بسیار کے زمرے میں آتا ہے اس لئے کہ غزہ ملیامیٹ ہے او راب وہاں مزید تباہی کے لئے کچھ بچا ہی نہیں یہاں تک کہ ہسپتالوں کو بھی اسرائیلی بمباری نے ڈھا دیا ہے اس کے بعد ہی نہایت تاخیر اور انسانی المیہ کی انتہا کے بعد ہی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جو اسرائیل ماننے کو تیار نہیں اب یہ عالمی برادری بشمول امریکہ کا امتحان ہو گا کہ وہ دنیا کے کسی قاعدے قانون اور مطالبے و قرارداد کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے عادی اسرائیل کے خلاف کیا اقدامات کرتی ہے ۔اس وقت غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کی حالت زار اور ان کی مدد فوری توجہ کی متقاضی امر ہے عالمی برادری کا بچے کھچے لوگوں کو بچانے کا ہی کردار باقی بچا ہے اس کی ادائیگی میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ۔اس راہ میں اسرائیل سب سے بڑی رکاوٹ ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل حال ہی میں رفح کراسنگ پر تھے اور انہوں نے ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیا جو غزہ پہنچنے میں امداد کو روک رہے ہیں۔ امید ہے کہ جنگ بندی سے مصیبت میں گھرے لاکھوں فلسطینیوں تک خوراک، پانی اور طبی امداد پہنچ سکے گی۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ پٹی میں بچے ”موت کے دہانے”پر ہیں۔ مزید برآں، اس ناپاک جنگ میں ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں، اور انہیں خاص طور پر طبی اور نفسیاتی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ان کی آنکھوں کے سامنے نسل کشی کے تشدد کو دیکھنے کے صدمے سے نمٹنے میں مدد ملے۔ یہ بین الاقوامی برادری کے فوری اہداف ہونے چاہئیں۔غزہ کی آبادی کو فوری انسانی امداد فراہم کرنے کے علاوہ، تمام فریقوں کو تشدد کے مزید مستقل خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ تقریبا ایک ہفتہ طویل جنگ بندی پر نومبر میں اتفاق کیا گیا تھا لیکن جلد ہی ٹوٹ گیا۔موجودہ انتظام زیادہ پائیدار ہونا چاہیے۔ اگرچہ اس وقت ‘حل’ کی بات کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہو سکتا ہے، لیکن ایک بار جب دھول بیٹھ جائے تو اسرائیل سے ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل کا بھی حساب لیا جانا چاہئے فلسطینیوں کی زندگیاں اہم ہیں، اور غزہ کے یتیم بچوں کی ایک نسل ان کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی برادری کی طرف دیکھے گی۔اب سب کی نظریں اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ پر ہوں گی۔ کیا تل ابیب یو این ایس سی کی قرارداد کی پاسداری کرے گا؟دم تحریر وہ برعکس اور بدستور جابرانہ و ظالمانہ کردار ادا کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا