ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی

چند دن قبل میرے ایک دوست ملنے آئے ، یہ پیشہ کے اعتبار سے انجنئیر ہیں اور اکاؤنٹس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں ۔ ہم نے ذاتی موضوعات کے علاوہ مُلک کی اقتصادی صورتحال اور ترقیاتی منصوبوں پر خوب مکالمہ کیا ۔ اُنہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پراجیکٹس کے بارے بڑی دلچسپ اور معلوماتی باتیں کیں ،یوں بھی آج کل ہم قومی سطح پر آئی ایم ایف میں اُلجھے ہوئے ہیں تو ضروری سمجھا کہ اسی موضوع پر کالم لکھا جائے تا کہ قارئین کرام تک ان باتوں کی رسائی ہو سکے ۔ ہمار ی عوام کی اکثریت اس بات سے آگاہ ہے کی تیسری دُنیا میں کے بہت سے ممالک میں اب تمام تر پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں کی منشا سے ترتیب پا رہی ہیں ۔ یہ وہ ادارے ہیں جو کسی جنگ و جدل کے بغیر محض قرضے دے کر مُلک فتح کر رہے ہیں ۔ میرے اس دوست نے عالمی سطح پر اقوام عالم کے ان محسن اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو آکٹوپس سے تشبیہ دی ہے ، یہ آکٹوپس پانی کی مخلوق ہے جس کے منہ میں سونڈ جیسے آٹھ ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں اور اسی سے وہ کیکڑے جھینگے پکڑ کر کھا جاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت معاشی لحاظ سے آئی ایم ایف کے آکٹو پس نے ہمیں جکڑا ہوا ہے اور ہماری ربت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ سب سے پہلے ہم آئی ایم ایف کے پاس 1950 میں گئے مگر اس وقت قرضہ کم اور گرانٹ زیادہ دی جاتی ۔ سال 1980 سے تو پھر یہ ہمارا معمول بن گیا کہ ہم اسی مالیاتی ادارے سے مسلسل قرضہ لینے لگے ، اب تک ہم اس کے پاس ٢٢ مرتبہ جا کر فیض یاب ہو چکے ہیں ۔ یہ عام بینک نہیں کہ کسی وقت بھی جا کر رقم حاصل کر لی بلکہ اس سے رجوع کے لیے چند شرائط کی تکمیل لازمی ہے جس میں تجارتی خسارے کا کم ہونا اہم ہے ۔ جرمنی میں آباد ایک یہودی سنار موزربیٹر کے پانچ بیٹوں میں ناتھن نے 1773 میں چند سرمایہ دار یہودیوں کے ساتھ مل کر دولت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اُنہوں نے بینک آف انگلینڈ پر قبضہ کیا اور پھر بتدریج اپنے ڈھب پہ منظم کیا ۔ اس کے بھائی روتھ شیلڈ کا منشا یہ تھا کہ حکومتوں کو قرض دیا جائے تا کہ اصل زر محفوظ ہو اور قرض کی واپسی بھی یقینی ہو ۔ اسی نقطہ نظر سے سب بھائیوں نے اپنا کام شروع کیا ۔ سٹی بینک سے راک فیلر کو تیل میں اجارہ داری کے لیے رقم فراہم کی ۔ یوں صرف دو لاکھ ڈالر کے اساسی سرمایہ سے کروڑوں ڈالر بنائے ۔ واشنگٹن میں سڑک کے ایک جانب ورلڈ بینک اور دوسری جانب آئی ایم ایف کا مرکزی دفتر ہے ۔ یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اورسب یہی سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر غریب ممالک کو معیشت کا سہارا دینے والے محسن ادارے ہیں ۔
ان کے ناموں سے یوں لگتا ہے جیسے اقوام متحدہ کے ذریعے اس کی تشکیل ہوئی ہو مگر ایسا نہیں ہے ۔ ورلڈ بینک دنیا بھر میں اس نظریہ کو پھیلانے کا ذمہ دار ہے جسے ” ٹرکل ڈاؤن ڈویلپمنٹ اینڈ ٹاپ ڈاؤن اپروچ ” کہا جاتا ہے ، جس کا مطلب مفاد عامہ کے بڑے منصوبوں اور صنعتوں کو سرمایہ فراہم کیا جائے تا کہ اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچ سکیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ آئی ایم ایف کے لیے تسلیم کیا گیا کہ اسے عدالتی کارروائیوں میں نہیں ڈالا جائے گا اور ادارے پر ٹیکس لاگو نہیں ہو گا ۔ عالمی بینک طویل المعیاد قرضے مہیا کرتا ہے تو آئی ایم ایف گزشتہ قرضوں پر سود اُتارنے سمیت مختصر المعیاد مالیاتی مشکلات رفع کرتا ہے ۔ عالمی بینک سے قرضے کی سہولت کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کی رکنیت حاصل کی جائے ۔ اس بینک کے دیگر ذرائع سے چار سے سات گنا تک قرض لیا جا سکتا ہے جو آئی ایم ایف کا قرض اتارنے کے کام آتا ہے اور اگر آئی ایم ایف سے کچھ نہ لیا جائے تو دیگر ذرائع سے بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ اس کے علاوہ ایک اور غضب یہ کہ قرضہ کی منظوری سے قبل اسٹرکچرل ایڈجسمنٹ ریفارمز سے اتفاق کرنا پڑے گا جسے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر سوشل ایکشن پروگرام کا نام دیا گیا ہے اور ان اداروں کی شرائط میں یہ شامل ہے کہ پٹرول ، بجلی ، گیس سمیت تمام اشیا پر بھاری ٹیکس دئیے جائیں ۔ غذائی و زرعی اجناس پر زر تلافی کو کم یا بالکل ختم کر دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی اشیا کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں ۔ ایک شرط تومحض سرمایہ دارانہ چال ہے کہ بڑے کاروبار پر کم سے کم ٹیکس لگائے جائیں جس کی بنیاد پر سرمایہ دار عیاشی اور حکومت کرنے کے مزے لوٹتا ہے ۔ اسی باعث اب یہاں امیر و غریب کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا اور مڈل کلاس کم ہوتی جا رہی ہے ۔ ہاں یہ مشورہ ان کا درست ہے کہ اپنے گھر میں بہتری لائیں ، ہم خود ہی اس حکمرانی سے نکل سکتے ہیں ۔ اخراجات کم کر کے آمدنی زیادہ کرنی ہو گی ، ٹیکس کے بوجھل طریقہ کار کو ختم کر کے آسان بنانا ہوگا ،بیمار عوامی اداروں اور گردشی قرضے سے نمٹنے کے بارے سنجیدہ فیصلے ضروری ہیں ۔ درآمد وبر آمد کے توازن اور غیر مُلکی زر مبادلہ کے ذخائر کا خیال رکھنا ہو گا ۔ دیکھتے ہیں کہ نئی حکومت کیا اقدامات کرتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی