”چائے کی پیالی کا طوفان ”

حالیہ چند برس میںخطے میں چائے کی دوپیالیوں کو شہرت بھی ملی اور ان کے اثرات بھی خطے کی سیاست پر مرتب ہوئے ۔چائے کی ایک پیالی وہ تھی جسے تھام کر بھارتی پائلٹ ابھینندن نے ایک چسکی بھرنے کے بعد کہا تھا کہ” دی ٹی واز فنٹاسٹک”۔چائے کی اس پیالی اور ابھینندن کی اس خاطر مدارت نے پاکستان کی طرف تنے ہوئے بھارتی میزائلوں کا رخ موڑ دیا تھا اور جواب میں پاکستان نے بھی جوابی کاروائی کا ارادہ ترک کردیا تھا اور یوں چائے کی اس پیالی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا گلیشئر پس پردہ پگھلنا شروع ہوگیا اور پردے کے پیچھے ایک مذاکراتی عمل کا آغاز ہوگیا تھاجو کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی تجدید پر منتج ہوا تھا ۔کئی برس ہو چکے ہیں مگر چائے کی پیالی سے اُٹھنے والی بھاپ کے اثرات اب بھی قائم ہیں اور پاکستان اور بھارت مخاصمت کے کسی نئے دور میں داخل نہیں ہوئے ۔چائے کی دوسری پیالی جسے شہرت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے اثرات آنے والے دنوں تک خطے پر قائم رہیں گے کابل کے ہوٹل میں پاکستان کے حساس ادارے کے سربراہ جنرل فیض حمید کی تھی جس کی چسکیوں میں جنرل فیض نے افغانستان میں خانہ جنگی اور پاکستان پر اس کے اثرات کے خدشات پر مبنی سوال کے جواب میں ایک جملہ کہا تھا ”آل از ویل”۔یہ وہ وقت تھا جب طالبان پونے دوعشرے کی جاں گسل جدوجہد کے بعد کابل میں داخل ہو چکے تھے اور افغانستان کے صدر اشرف غنی ایوان صدر کو ویران چھوڑ کر کوچ کر چکے تھے۔اُدھر طالبان کابل میں فاتحانہ داخل ہوئے اِدھر جنرل فیض کابل کے ہوٹل میں چائے کی پیالی تھامے عالمی منظر پر نمودار ہوئے ۔جنرل فیض کی اس انداز سے اور اس موقع پر کابل میں موجودگی پر پاکستان میں دبے لفظوں میں تنقید ہوئی مگر بھارت اور امریکہ سمیت کئی عالمی طاقتوں نے اسے پاکستان کی طرف سے فتح مندی کا تاثر جان لیا۔انہوںنے جنرل فیض کی لہرائی جانے والی چائے کی پیالی کو جشن فتح کا ایک انداز سمجھ لیا ۔ظاہر ہے یہ وہی طاقتیں تھیں جو پونے دوعشرے تک پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام عائد کرتی رہیں ۔حد تو یہ کہ جنرل پرویز مشرف جی جان سے مغرب پر فدا ہوئے مگر وہ بھی مسلسل ڈبل گیم کے الزام کی زد میں رہے ۔ڈبل گیم کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف پاکستان امریکہ کے دبائومیں ڈرون حملوں کے لئے ائر بیسز اور زمینی سپلائی کے لئے راہداری فراہم کئے ہوئے تو دوسری طرف پاکستان طالبان کے سخت گیر گروپ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتا ہے اور حقانی نیٹ ورک امریکی فوج پر تباہ کن کاروائیاں کرتا ہے۔شاید ایک اور عسکری مفکر حمید گل اسی الزام کو رومانوی اور افسانوں ٹچ دے کر کہہ چکے تھے کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی۔یوں کابل کے ہوٹل میں چائے کی پیالی بہت سی انائوں کو زخمی کرگئی اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ پیالی مستقل نزع کا سامان بن کر رہ گئی ۔مغربی طاقتیں طالبان کو پاکستان کا پروجیکٹ سمجھ رہی تھیں اور ان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کو وہ پاکستان کے دیرینہ خواب کی تکمیل اور حکمت عملی کی کامیابی سمجھ رہے تھے سو انہوں نے اپنے تئیں پاکستان کا کھیل اسی پر اُلٹ ڈالنے کا راستہ اپنایا گیا ۔یہی وہ دن تھے جب ایک امریکی اخبار میں یہ مضمون شائع ہوا کہ امریکہ کے پاس افغانستان سے نکلنے کے بعد خطے میں کیا آپشن ہے ایسے میں جب کہ پاکستان بھی امریکہ کی کسی جنگ کا مزید بوجھ اُٹھانے سے کترا رہا ہے تو مضمون میں ہی اس کا جواب تھا کہ امریکہ کے پاس پاکستان کے ساتھ نباہ کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ۔امریکہ پاکستان کی کلائی مروڑنے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کا استعمال کر سکتا ہے۔پاکستان کے لئے آپشن یہی تھاکہ اس نے طالبان کی صورت میں ہاتھوں سے جو گرہ لگائی ہے اسے دانتوں سے کھولنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔اس سوچ کی بدولت پاکستان اور طالبان حکام کے درمیان بداعتمادی کا ماحول کبھی ختم نہیں ہوسکا ۔طالبان کو اندازہ تھا کہ پاکستان کسی بھی لمحے دبائو میں آکر اپنی افغان پالیسی سے یوٹرن لے گا تو انہوںنے ٹی ٹی پی کے دبائو کو تحلیل کرنے کی بجائے بحال رکھنے کا راستہ اختیار کیاا ور پاکستان واقعتا امریکہ کے ساتھ تعاون اور اشتراک کے ایک نئے دور میں داخل ہوا اور یوں طالبان اور پاکستان منزل کے قریب پہنچ کر دو الگ سمتوں کو چل دئیے ۔اب طالبان اور پاکستان کے درمیان فاصلوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک محدود سی جنگ کا سکرپٹ بھی برسوں سے تیار ہے ۔جب سے اسرائیل کے بعد بھارت کو امریکہ کا دوسرا تزویراتی شراکت دار بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے تو ان کی کوشش ہے کہ اب انڈو پاک سرحد پر محبتوں کے پھول کھلتے رہیں تاکہ بھارت کی ترقی کے سفر میں راہ کا کوئی کانٹا موجود نہ رہے ۔اس کے برعکس اگر کشیدگی کو بحال رکھناضروری ہوتو کانٹوں بھری اس فصل کے لئے افغانستان کی ڈیورنڈ لائن ہی کھیت کا کام دیتی رہے۔پاکستان کی طرف سے خطرے کا بورڈ واہگہ بارڈر سے اُٹھا کر دریائے سندھ میں بہانا بھی کوئی آپشن نہیں بلکہ اس بورڈ کو واہگہ سے اُٹھا کر طورخم میں نصب کرنا تقاضا ہے تاکہ دونوں ملک دہشت گردی دہشت گردی کھیلتے رہیں اور بھارت ان کی پہنچ اورسوچ سے آگے نکل جائے ۔یہ ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف ایک مذہب ایک زبان ایک ثقافت بلکہ خونی رشتے ہیں۔پاکستان جیسے کثیر الاقومیتی ریاست اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔اب حالات یہ ہیں کہ طالبان خود کو افغانستان کا جائز اورقانونی حکمران سمجھ رہے ہیں وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے لڑ کر آزادی حاصل کی اور پاکستان نے اس جنگوں میں ان کی مدد کرکے حقیقت میں اپنا دفاع اور معیشت مضبوط کی۔اس لئے وہ سات جماعتی افغان جہادی راہنمائوں کی طرح پاکستان کے احسانات کا زیادہ ذکر نہیں کرتے ۔ یہاں یہ فرق ہے کہ طالبان افغان جہادیوں کی دوسری نسل ہے۔ چائے کی پیالی نے کہیں امن کے پھول کھلائے اور کہیں جنگ کے شعلے بھڑکا دئیے۔چائے کی پیالی میں طوفان تو سنا تھا مگر چائے کی پیالی کا طوفان ہم کئی برس سے طورخم بارڈر پر دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ