اہم منصوبے پرکام کی بندش

دشمن معاشی طور پر پاکستان کو خدانخواستہ مفلوج بنانے کے جن منصوبوں پر عمل پیرا ہے پاک چین اقتصادی منصوبہ ان کا بطور خاص ہدف ہے اور اس سلسلے میںمنظم سازش کے تحت جس طرح غیر ملکی ماہرین کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہ ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر گئی ہے ،تازہ واقعے کے بعد چائنہ کمپنی پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنہ لمیٹڈ کی جانب سے سکیورٹی کے پیش نظر تربیلہ ڈیم پاؤر سٹیشن کے توسیعی منصوبے ٹی فائیو پر کام روک دیا گیا ہے، اس سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تربیلہ غازی ٹی فائیو منصوبہ پر کام سکیورٹی وجوہات کی بنا ء پر روکا گیا ہے اور اگلے نوٹیفکیشن تک تعمیراتی کام معطل رہے گا۔دریں اثناء چینی باشندوں کی حفاظت اورنقل وحرکت سے متعلق ایس اوپیز جاری کر دی گئیں، ایس او پیز ڈی آئی جی کی جانب سے وزارت داخلہ کی ہدایات کی روشنی میں جاری کی گئی ہیں۔ ایس او پیز کے مطابق سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو بغیر بلٹ پروف گاڑی کہیں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ چینی باشندے بغیر حفاظتی اقدامات کے نقل و حرکت سے متعلق فوری طور پر متعلقہ اداروں کو مطلع کریں گے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں کہا گیا ہے کہ چینی باشندوں کی نقل و حرکت سے متعلق تمام متعلقہ ادارے ایک دوسرے سے اضلاع کی سطح پر رابطے میں رہیں گے، جبکہ غیر ملکیوں کیلئے پہلے سے طے شدہ ایس اوپیز پر بھی عملدرآمد کیا جائے گا۔صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کیلئے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاک فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک سی پیک یونٹ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹبلری کو بھی اکثر اوقات تعینات کیا جاتا ہے۔لیکن اتنے انتظامات کے باوجود بھی افسوسناک واقعات کا مکمل تدارک ممکن نہیں ہوسکا ہے چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سکیورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔یہ خیبرپختونخوا میں کوئی پہلا دہشتگردی کا واقعہ نہیں جس میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا ہو بلکہ اس سے قبل2021ئمیں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں نو چینی انجینئرز سمیت 13افراد ہلاک ہوئے تھے۔خیال رہے کہ چین نے پاکستان میں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)کے تحت ملک میں 62ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کیلئے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔چینی حکومت اپنے ملک کے باشندوں کی سلامتی و حفاظت کے حوالے سے بہت حساس ہے دوسری جانب سے ان کو اس طرح کے واقعات کے بعد جو یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں اور جن اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے اس طرح کے کسی واقعے کے بعد ان کے اقدامات کا عقدہ کھلتا ہے کہ وہ پورے نہیں تھے بہرحال اصل بات یہ ہے کہ ان کو سکیورٹی دینے میں بار بار ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور ہر بار نئے طریقے سے نشانہ بننے والوں کے تحفظ کیلئے فول پروف انتظامات کیوں نہیں ہوتے ،جس طرح کی سکیورٹی اور پروٹوکول حکمرانوں کو ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ حفاظتی حصار کی چینی ماہرین کو ضرورت بھی ہے اور ان کو ملنی بھی چاہئے چینی ماہرین کی ہلاکت پر جس طرح بھاری معاوضہ کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے وہ وسائل ان کے تحفظ کیلئے کیوں خرچ نہیں کئے جاتے؟، ہر بار اعلیٰ ترین سطح پر وعدے ملاقاتیں ، تعزیت اور ہمدردی کا اظہار اور مزید یقین دہانیوں کا لاحاصل سلسلہ اب بند ہونا چاہئے چینی باشندوں کی آمد ورفت کی راز داری کا بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے، نیز جن راستوں سے ان کو گزرنا ہوتا ہے اس کے تناظر میں ان کی حفاظت کا موزوں بندوبست ہونا چاہئے چینی باشندوں کے تحفظ کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کا استعمال کار آمد تجویز تو احسن ہے ساتھ ہی اب ان کوگاڑیوں کے قافلے میں اور ناقابل شناخت بنانے کیلئے ایک ہی قسم کی گاڑیوں کے استعمال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، صرف یہی کافی نہیں ہو گا بلکہ اب سڑکیں کلیئر کرنے کیساتھ ساتھ چینی قافلوں کو دیگر طریقوں سے نشانہ بنانے کے خطرات و امکانات کے سدباب کیلئے بھی خصوصی حفاظتی حصار کا انتظام ضروری نظر آتا ہے ۔ دشمن کو مطعون کرنے کی بجائے خود اپنے انتظامات کو مضبوط بنایا جانا چاہئے اور تمام امکانات و خطرات کا پاک چین حکام کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقات و اجلاسوں میں مشترکہ طور پرغور کرکے عملی اقدامات یقینی بنائے جائیں تاکہ اہم منصوبوں کی بار بار بندش و معطلی کی نوبت نہ آئے ہر حملے کے بعد بندش و معطلی اور عدم تحفظ کی فضاء میں اضافہ اور چین کی طرف سے ناپسندیدگی و عدم اطمینان کا اظہار سنجیدہ معاملہ ہے سازش کرنے والے عناصر کا مطمع نظر بھی اس طرح کے حالات پیدا کرنا ہے یہ عناصر ہر بار ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر وقتاً فوقتاً اپنے مقاصد کو تقویت پہنچاتے ہیں ان کو مزید موقع نہ دینا ہی بہتر حکمت عملی کہلائی جا سکے گی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار