گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟

گزشتہ دنوں ایک ننھے فلسطنی بچے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وارل ہوئی جس میں وہ اپنے تباہ شدہ ملک کے کسی کونے میں بیٹھا اپنے بھوک کو مٹانے کی خاطر گھاس کھارہا ہے جبکہ دوسری طرف انکے پڑوسی ملک کے عرب مسلمان بھائی پر تعیش کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔دیکھنے والوں کیلئے تو اس میں ایک دو منٹ کے دیکھنے کا سامان ہے لیکن اس چھوٹے سے ویڈیو کلپ میںنہ صرف ان عرب بھائیوں کیلئے بلکہ پوری امت محمدیۖ کیلئے ایک طوفان مضمر ہے۔ وہ کیسے مومن ہوسکتا ہے جو خود تو پیٹھ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا رہے اور پھر رمضان کے مہینے میں ہم سے جو مشق کرایا جاتا ہے اسکا اصل مقصد اور مدعا ہی یہی ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا احساس ہوجائے جو بھوکا پیاسا رہ کر اپنی زندگی کی تاریک راتوں کو صبح اور صبح کو رورو کر شام کرتے ہیں۔ یہ بچہ سرزمین فلسطین کا واحد بچہ نہیں ہے۔ اسکے ہزاروں لاکھوں ہم وطن اسی کرب سے گزررہے ہیں۔ پوری دنیا کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ پچھلے تقیریبا پانچ چھ مہینوں کے دوران سرزمین فلسطین میں صرف بھوک کی وجہ سے سینکڑوں ایسے بچے اپنی جانیں گنوابیٹھے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ اپنے پیاروں کی خون آلودلاشیں دیکھ دیکھ کر روز مرتے جاتے ہیں۔ انکے گھر برباد ہوگئے، ان کے سہارے بچھڑ گئے۔ ہم روز سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ کیہں یہ بچے اور بچیاں اپنے شیرخوار بہن بھائوں کو گود میں اٹھائے انکے لئے کھانے کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں تو کہیں ان ڈرے سہمے بچوں کو دلاسہ دے دے کر دنیا کے کسی کونے سے کسی مسیحا کے آنے کی امید دلاتے ہوئے، کہیں انکے بھائی طاغوتی طاقتوں کی بہیمانہ ظلم و بربریت کا نشانہ بنے اپنے پیاروں کو ہسپتال پہنچاتے تو کہیں انکی لاشوں کو کندھا دیتے اور انہیں دفناتے نظر آتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھاتے ہوئے ان کے کاندھے تھک چکے ہیں لیکن عزم و شجاعت کے پیکر فلسطینی عوام مسجد اقصیٰ کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح آج بھی پرعزم ہیں۔ اب تک آٹھ ہزار سے زائد بچے اسرائیلی فوج کی ننگی جارحیت کا نشانہ بن کر موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔آٹھ اکتوبر سے لے کر آگ و خون کے اس کھیل میں آج تک پینسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید کئے جاچکے ہیں۔جو زندہ ہیں انکے گھر بار لٹ چکے ہیں۔ ان والدین کے کیا احساسات ہونگے جو اپنے بچے کے جسم کے کسی حصے پر ان کا نام اس خیال سے کندہ کرتے ہیں کہ ہر طرف پھیلے بارود کی فضاوں میں انکا بچہ اللہ کو پیارا ہوجائے تو دفنانے کی خاطر ان کو کم از کم پہچان تو لے۔ لیکن اسکے باوجود انسانی حقوق کے علمبرداروں کو فلسطین کی بارود زدہ فضاؤں میں سانس لینے سے گھٹن محسوس نہیں ہوتی۔ وہ ہر روز فلسطین میں قیامت صغریٰ کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن نہ تو مہذب دنیا کے ان ٹھیکیداروں کو تڑپتی لاشیں نظر آرہی ہیں اور نہ ہی ان بلکتی بچوں کی آہ و بکا، جو غذائی قلت کی وجہ سے رورو کر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اظہار خیال کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسکے بڑے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں لیکن اسکے باوجودانسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام عالم اور خصوصاً مہذب دنیا کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم غیروں کے اس روئے کا رونا کیوں روئیں۔ ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ آج دنیا میں تقریبا دو ارب کے قریب مسلمان ہیں لیکن ریاستی سطح پر دنیا کے کسی کونے سے فلسطینی بھائیوں کیلئے کوئی آواز نہیں نکل رہی۔ پوری دنیا میں بشمول امریکہ، برطانیہ اور یورپ فلسطینی عوام پر غاصب صیہونی طاقتوں کی اس ننگی جارحیت کے خلاف عوامی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن مسلم دنیا کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے اور جہاں کہیں عوام کی طرف سے آواز اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے دبا یاجاتا ہے تاکہ امریکہ بہادر ناراض نہ ہوجائے۔یہی حال ہمارے حکمرانون کا بھی ہے۔ لیکن حکمرانوں کی اس بے حسی پر رونے سے بہتر ہے کہ عوام اپنے تئیں اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی بساط کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں کی ہر ممکن مالی اور اخلاقی مدد کریں۔ عوامی سطح پر جو کام سب سے بہتر انداز میں ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہوسکے سوشل میڈیا پرغاصب صیہونی طاقت کے کالے کرتوتوں کا پردہ پاش کرکے اس شیطان عظیم کے ناپاک چہرے کودنیا کے سامنے لایا جائے۔ عوام اپنی بساط کے مطابق چندہ اکھٹا کرکے ان کیلئے خوراک، ادویات، کپڑے اور دیگر سامان بہم پہنچانے میں انکا ساتھ دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں تو فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کی خاطر منعقد ہونے والے احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرکے اپنا ریکارڈ رجسٹر کروائیں اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ہم فلسطینی مسلمان بھائیوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات