p613 35

ٹڈی دل سے بچائو کیلئے پیشگی اقدامات کی ضرورت

ٹڈی دل نے ملک کے متعدد اضلاع میں ہرے بھرے کھیت اجاڑ ڈالے ‘ جس کے باعث زرعی پیداوار میں نمایاں کمی کے خدشات موجود ہیں جو غذائی قلت کا سبب بھی بن سکتے ہیں’ اب حکام نے خبردار کیا ہے کہ ٹڈی دل کا ایک اور شدید حملہ جولائی کے وسط میں ممکن ہے’ حکام نے عندیہ دیا ہے کہ بھارت سے مون سون کی ہوائیں اپنے ساتھ ٹڈیوں کا ایک طوفان بھی لائیں گی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت ٹڈی دل کے حملہ سے بچائو کیلئے پیشگی اقدامات اٹھا رہی ہے’ اس مقصد کیلئے 14ارب روپے وفاقی حکومت جب کہ 12ارب روپے چاروں صوبوں کی جانب سے فنڈنگ ہو گی۔ پاک فوج کے 5سے 8ہزار جوان بھی ٹڈیوں کے خاتمے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بعد پاکستان کی معیشت کا مکمل اور واحد انحصار زراعت پر ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کی غذائی اجناس کا بڑا حصہ اپنے ہی زرعی شعبے سے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کھیتوں کو ٹڈی دل کے حملے سے بچانے سمیت حکومت کی طرف سے زرعی شعبے پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ اگر خدانخواستہ ان حالات میں ہمارا زرعی شعبہ بھی متاثر ہو گیا تو ملک میں بڑے پیمانے پر غذائی بحران جنم لے سکتا ہے’ عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ جب ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو جب تک کھیتوں میں ہریالی باقی رہتی ہے ٹڈیوں کے غول کھیتوں سے نہیں جاتے۔ حکومت اگرچہ اس اہم ایشو سے غافل نہیں ہے تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر پیشگی اقدامات اٹھائے جائیں’ چونکہ پاکستان کے لاکھوں ایکڑ رقبہ پر زراعت ہوتی ہے اس لئے حکومت کیلئے تن تنہا اس مسئلے سے نمٹنا ممکن نہیں اس ضمن میں کسانوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان اور اس مہم میں کسانوں کی شمولیت بہت ضروری ہے تاکہ ہم ٹڈی دل کے ممکنہ حملوں سے اپنے کسان اور زراعت کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔
بی آر ٹی بجٹ میں مزید اضافہ
پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 39ارب روپے لگایا گیا تھا’ 29اکتوبر 2017ء کو تعمیراتی کاموں کا آغاز کیا گیا جس کی مدت تکمیل 6ماہ بتائی گئی تھی لیکن بار بار کی ڈیڈ لائن کے باوجود بھی بی آر ٹی تکمیل کی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی ہے جب کہ بجٹ میں تخمینے سے کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے’ منصوبے کی مجموعی لاگت 70ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور اگر حالیہ بجٹ میں 9ارب 66کروڑ کے اضافے کو بھی شامل کر لیا جائے تو بی آر ٹی کی مجموعی لاگت 80ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ عجب تماشا تو یہ ہے کہ بجٹ میں بار بار کے اضافے اور افتتاح کی متعدد بار تاریخ دینے کے باوجود حتمی طور پر معلوم نہیں ہے کہ بی آر ٹی منصوبے پر کل کتنی لاگت آئے گی اور کب تک تکمیل ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقیاتی اور تعمیراتی کام جب تک چلتے ہیں ان پر اخراجات بھی اٹھتے ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ بی آر ٹی منصوبہ جب تکمیل کو پہنچے گا تو اس کی لاگت میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا ہو گا’اس لیے ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنی تمام تر توجہ بی آر ٹی منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے پر مبذول کرے تاکہ منصوبہ مکمل ہواور جس مقصد کیلئے یہ بنایا گیا ہے عوام اس سے مستفید ہو سکیں ۔
سرکاری محکموں کیلئے کفایت شعاری پروگرام
کفایت شعاری پروگرام حکمران جماعت کے منشور کا حصہ ہے’ وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے سب سے پہلے وزیر اعظم ہائوس میں کفایت شعاری کا آغاز کیا تھا’ وزیر اعظم ہائوس کی مہنگی و اضافی گاڑیوں کی نیلامی’ کشادہ وزیر اعظم ہائوس میں رہائش کی بجائے اسے نیشنل لائبریری میں تبدیل کرنا ‘ حتیٰ کہ وزیر اعظم ہائوس کی بھینسوں کی نیلامی بھی’ اسی کفایت شعاری مہم کا حصہ تھی۔ اب نئے مالی سال میں وفاقی حکومت اپنے انتظامی اخراجات کم کرنے اور کفایت شعاری کیلئے غیر ضروری اور فالتو سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کا ارادہ رکھتی ہے’ سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں پر پابندی بھی کفایت شعاری مہم کا حصہ ہے’ افسروں کے زیر استعمال وہ بنگلے نیلام کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو کئی کئی کنال پر بنے ہوئے ہیں’ اسی طرح سرکاری میٹنگز میں کھانے کے اہتمام پر پابندی عائد ہو گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے’ جس کے مالی مسائل بے شمار ہیں’ عوام کی اکثریت علاج ‘ تعلیم اور دو وقت کی روٹی کی سہولت سے محروم ہے’ ایسے ملک کے حکام کو زیب نہیں دیتا کہ عوام تو بھوکے پیٹ ہوں اور حکام عیش و آرام کے مزے لوٹ رہے ہیں ‘ دریں حالات اگر وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے سرکاری محکموں میں کفایت شعاری پروگرام لانے کا فیصلے کیا گیا ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے کیوں کہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو جب معلوم ہو گا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے حکمران ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو عوام کو اپنی پریشانی اور تکلیف کا احساس نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا