logo 4

حکومت اور حزب اختلاف کی میں نہ مانوں کی پالیسی

خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف کا ایک دوسرے کومعافی مانگنے تک معاف نہ کرنے کا رویہ پارلیمانی روایات کے منافی طرزعمل ہے۔ غلطی کے ارتکاب کے بعد معافی کا خواہش گار ہونا اور معافی مانگنا اس وقت ہی ممکن ہوتا ہے جب غلطی کا ارتکاب یکطرفہ ہو، خیبرپختونخوا اسمبلی میں آگ برابر کی لگی ہوئی ہونے کی صورتحال ہے۔ دونوں کے طرزعمل سے تو کم از کم ایسا لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایوان کی کارروائی اور معاملات کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، حالات جس نہج پر جارہے ہیں اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے کوئی فریق تیار نہیں اس سے تو یہ لگتا ہے کہ اسمبلی کو عضو معطل بنادیا جائے اور نوبت اسمبلی سے استعفوں اور اسمبلی توڑنے کی آجائے ممکن ہے سیاسی عناصر کی سوچ یہ نہ ہو لیکن عملی طور پر وہ اس قسم کے حالات پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ اسمبلی کے وجود کیلئے اس کی کارروائی آگے بڑھنا، حزب اختلاف اورحکومت کے درمیان پارلیمانی روابط ضروری ہوتے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو پھر اسمبلی کے اجلاس اور ایوان کی کارروائی یکطرفہ طور پر چلائی بھی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔حکومت اورحزب اختلاف کو ایوان کو بے وقعت کرنے کی بجائے کہا سنا معاف قسم کا طرزعمل اختیار کر کے اختلافات کو بڑھانے کی بجائے مفاہمت کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔
پی ڈی اے کو معاوضہ ادا کیا جائے
پشاورڈویلپمنٹ اتھارٹی بلکہ حیات آباد کے مستقل رہائشیوں کے اجتماعی اثاثہ کو بی آرٹی کیلئے بروئے کار لانے کے باوجود حکومت کا30کنال اراضی کے پانچ ارب روپے کی ادائیگی سے انکار کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں۔ کسی بھی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قبضہ گروپ کا طرزعمل اپنائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی اے کے حکام کو کسی معاہدے سے قبل اراضی استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرنے کی ضرورت تھی، ایک سرکاری ادارے کا سرکاری اور عوامی استعمال کیلئے اراضی دینے سے انکار درست اقدام نہ ہوتا،اراضی کے کمرشل استعمال کے بعد اس کی قیمت کی ادائیگی سے انکار کا کوئی جواز نہیں۔ اگر حکومت کے پاس ادائیگی کیلئے رقم موجود نہیں تو پھر اس جگہ بننے والے کاروباری مرکز میں پانچ ارب روپے کی مالیت کاپی ڈی اے کو حصہ دیا جائے، پی ڈی اے کو اثاثوں سے محروم کرنے اور ان کے اثاثہ جات پر ناجائز قبضہ کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ شہری ادارے کو جہاں کرپشن وبدعنوانی سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہاں اس کے وسائل کا درست استعمال اور اجتماعی ترقی کیلئے بروئے کار لانا حکومت کی ذمہ داری ہے کجا کہ اس اثاثوں پر قبضہ کیا جائے اور معاوضہ کی ادائیگی نہ کی جائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ شہری ترقیاتی ادارے کوادائیگی کا بندوبست کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا