mushtaq shabab 23

افیون،چرس اور ٹماٹر

تفو برتو اے چرخ گردوں تفو!یہ دن بھی دیکھنا تھے،ٹماٹر نہ ہوئے افیون ،چرس اور گانجا ہوگئے،اب جس کو بلیک میں فروخت کرنے کی دو کالمی خبریں شائع ہورہی ہیں،اور ضلعی انتظامیہ نے سبزی منڈی سے باہر کھڑے کئے گئے ٹرکوں پر چھاپہ مار کر قبضہ میں لے کر نیلام کردیا تھا ان ٹرکوں کو منڈی کے اندر اس لئے نہیں لایا جارہا تھا تاکہ زیادہ قیمت وصول کی جاسکے اور بلیک مارکیٹئے اپنی تجوریاں بھر سکیں۔ ٹماٹروں کی مہنگائی کا رونا ہر کوئی روتا ہے مگر اس کا علاج کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔مانا کہ گزشتہ برسوں کے دوران بھارت سے ٹماٹروں کی درآمد سے مقامی مارکیٹوں میں قیمتیں اعتدال پر رہتی تھیں،تاہم پلوامہ واقعہ کے بعد(جس کی ایک بار پھر سیاسی سطح پر دھوم مچی ہوئی ہے)نہ صرف بھارت کے اندر پاکستان کے خلاف نفرت انگریز مظاہروں کے بعد سارا غصہ ٹماٹروں پر اتارا گیا اور بھارتی کاشتکاروں اور کسانوں نے اپنے ٹماٹر ضائع کر نا پسند کئے لیکن انہیں پاکستان کو فروخت کرنے سے انکار کردیاتھا،جبکہ جوابی غصہ ہمارے ہاں بھی یار لوگوں نے درآمد شدہ ٹماٹروںکو سوزوکیوں اور ڈاٹسنوں کے نیچے کچل کراتارا۔ یوں تب سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت پر پابندیوں کی وجہ سے اب صرف اپنے ملک کے اندر پیدا ہونے والے ٹماٹروں یا پھر افغانستان میںسیزن شروع ہونے کے بعد درآمد ہونے والے ٹماٹروں پر ہی گزارہ کیا جارہا ہے جبکہ ایران سے بھی ٹماٹروں کی درآمد کے حوالے سے خبریں آتی رہی ہیں مگر یہ سلسلہ کیوں موقوف ہوگیا ہے کچھ خبر نہیں ٹماٹرکے افیون،چرس اور گانجے کی طرح بلیک میں فروخت ہونے کی توماضی میں یہ نشہ آور اشیاء بھی آج ہی کی طرح بلیک میں ہی فروخت ہوتی تھیں اور پولیس والے جب کبھی جواخانوں یا پھر یہ اشیاء بلیک میں فروخت کرنے والوں کے خلاف چھاپہ مارنے جاتے تھے تو قمارخانوں میں قدم رکھنے سے پہلے تاش کے پتے اور”دانہ” ضرور جیب میں رکھ لیتی تھی تاکہ اگر وہاں سے کچھ برآمد نہ ہو تو اپنے ساتھ لے کر جانے والی ان اشیاء کو”آلات قمار”کے طور پر ایف آئی آر میں درج کرنے میں آسانی ہو،اسی طرح چرس کی پڑیا اور افیون کی تھوڑی سے مقدار چنڈوخانوں پر یلغار کے وقت ضرور ساتھ رکھتی،آجکل شنید ہے کہ راہ چلتے کسی بھی شریف ،بدمعاش کو پکڑ کر ہیروئن کی چھوٹی سی پڑیا برآمد کرنے کا ناٹک رچایا جاتا ہے۔یعنی وقت بدل چکا ہے اور افیون ،چرس کے ساتھ ساتھ ہیروئن بلکہ اب تو آئس بھی اس طریقہ واردات میں شامل ہوتا ہے،تاہم جو صورتحال اس وقت ٹماٹر کی ہے اور اب بلیک مارکیٹ کیلئے یہ بھی”آئٹم”بن گیا ہے تو ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹماٹر بھی”شجر ممنوعہ”قرار دیاجائے۔اس صورتحال پر ایک تو اپنے لڑکپن کا وہ دور اور اس حوالے سے مرزا غالب کا لطیفہ اور دوسرا اپنے والا محترم کا بیان کیا ہوا واقعہ یاد آگیا۔اپنے لڑکپن کے واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب میں گھر سے دکان پر پیپل منڈی جایا کرتا تھا تو گھنٹہ گھر سے آگے سبزی منڈی سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا،وہاں دکاندار فالتوں اور گلی سڑی سبزیاں چھان کر سڑک کے درمیان میں پھینک دیتے تھے جسے میونسپلٹی کی لاری میں ڈال کے لے جایا جاتا،ان گلی سڑی سبزیوں میں ظاہر ہے ٹماٹر بھی ہوتے تھے،وہاں سے گزرنے والے گدھے بھی انہیں سونگھ کر چھوڑ دیتے تھے،یعنی گدھے بھی نہیں کھاتے تھے،اس پر مرزاغالب کا وہ لطیفہ یاد آتا ہے ،جب ایک بار مرزا کچھ احباب کے ساتھ بیٹھے آموں سے لطف اندوز ہورہے تھے(مرزا کو آموں سے بڑی رغبت تھی)تو ایک مصاحب جسے آم پسند نہیں تھے ایک طرف بیٹھا تھا اتنے میں ایک جانب سے ایک شخص گدھے پر سوار آیا ،گدھے نے آموں کے پھینکے ہوئے چھلکے سونگھے اور آگے بڑھ گیا،تو اسی شخص نے مرزاغالب پر طنزاً کہا کہ دیکھو مرزا گدھے بھی آم نہیں کھاتے،غالب نے ترنت جواب دیا جی ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔دوسرا واقعہ والد محترم اکثر سنایا کرتے تھے کہ(متحدہ ہندوستان کے دور میں)جب وہ تجارت کی غرض سے حیدرآباد دکن میں مقیم تھے تو فروٹ کی ایک دکان پر اکثر رنگ برنگی کاغذوں میں لپٹے ہوئے ایک پھل پر نظر پڑتی(وہ کاغذ جو پتنگوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے)دکاندار اس کی اچھی خاصی قیمت بتاتا،ایک روز والد مرحوم نے اس کاغذ میں پوشیدہ پھل کو خریدنے کا فیصلہ کر کے مطلوبہ قیمت ادا کی اور پھل کا دانہ حاصل کر کے جب اسے کاغذ سے باہر نکالا تو معلوم ہوا کہ وہ ”نایاب”پھل دراصل ناشپاتی تھا،جو پشاور کے گردونواح میں باغات میں اس قدروافر مقدار میں اُگتا تھا کہ فروٹ کے انبار لگے ہوتے اور اکثر منڈی میں دکاندار اپنے سامنے زمین پر ڈھیر لگا کر سیروں اور دھڑیوں کے حساب سے سستے داموں فروخت کرتے ،مگر حیدر آباد میں نایاب تھا اس لئے ریپر میں لپیٹ کر مہنگے داموں بکتا تھا۔ اب ٹماٹر کی جو صورتحال بن چکی ہے تو وہ دن دور نہیں جب یہ بھی رنگ برنگے کاغذوں میں لپیٹ کر یا پھر بلیک میں فروخت کیاجائے گا اور زیادہ مقدار میں لیجانے والے”پولیس چھاپوں” کے شکارہوںگے گویا ٹماٹر نہ ہوئے افیون ،چرس اور گانجا ہوگئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار