4 227

تہذیب وثقافت اور مذہبی اقدار وروایات

اگرچہ ثقافت کی جامع ومانع تعریف آج تک نہیں ہوسکی لیکن اصطلاحاً اس کے معانی لوگوں کے رائج رسوم ورواجات اور رہنے سہنے اور مذہب وعقیدے سے جڑی بعض روایات گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ تہذیب اور ثقافت کو اس لئے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نزاکت وحساسیت کی حامل ہونے کے سبب براہ راست سمجھنا بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے جبکہ وہی چیز بعض لوگوں کیلئے سمجھنا عقیدے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے، مثلاً پچھلے دنوں فرانس میں شائع شدہ خاکوں کے ردعمل میں مسلم دنیا میں فرانس کیساتھ سفارتی وتجارتی تعلقات ختم کرنے کی بڑی شدید تحریک اُٹھی۔ جس کی اب وہ شدت نہیں رہی، لیکن مسلمان معاشروں میں اُس کے اثرات اب بھی ہیں جبکہ دوسری طرف مغرب اور امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس قسم کی مکروہ وقبیح حرکات واعمال کو وہ اہمیت اور اُس کی روک تھام پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو مسلمان امت میں دی جاتی ہے کیونکہ اس کا گہرا تعلق عقائد وتہذیب وثقافت میں فرق کیساتھ ہے۔سابق امریکی صدر اوباما نے یو این او میں ساری دنیا کے سامنے کہا تھا کہ ”ہم نے یہ پوزیشن (اظہار رائے کی آزادی کا دفاع وتحفظ) اس لئے لی ہے کہ ہم آزادی اور حق رائے دہی پر یقین رکھتے ہیں اور ان ”اقدار” کا تعلق کسی ایک ثقافت کیلئے منفرد نہیں اور نہ ہی یہ مغربی اور امریکی اقدار ہیں بلکہ یہ (آزادی اظہار رائے) عالمگیر اقدار ہیں” یہاں امریکہ میں بے شمار مطبوعات جارحانہ ہوتی ہیں۔ امریکہ میں عیسائیوں کی اکثریت کے باوجود ہمارے بہت ہی مقدس عقائد کی بے حرمتی پر کوئی پابندی نہیں ہے”۔ امریکی دنیا بھر میں لوگوں کے اس حق کی حفاظت کیلئے لڑے اور مرے ہیں۔ ہم اس طرح اس لئے نہیں کرتے کہ ہم نفرت انگیز تقاریر کو سپورٹ کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کے تحفظ کیلئے کرتے ہیں” لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسلم دنیا مغرب کے تخلیق کردہ Technological life word کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے قبول کر چکی ہے۔ افواج سے لیکر بازاروں، دفاتر اور گھروں تک سب مغربی ٹیکنالوجی پر چل رہے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں صحیح اور حقیقی معنوں میں مغرب کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے؟ تمام اسلامی ممالک کی افواج اپنے ممالک کے دفاع کیلئے امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے کرتی ہیں۔ ایسے میں کیا جزوی بائیکاٹ اور چھوٹی موٹی اشیاء وغیرہ کی بائیکاٹ سے اتنے بڑے اور نازک مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ اس عظیم کام کیلئے اور اس بڑے ہدف واسلامی نصب العین کے حصول کیلئے علماء اسلامی تحریکوں کے زعما اور حکمرانوں کو بہت بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی اس کیلئے اصل تحریک جو چلانی پڑے گی وہ مغرب کی لائف سٹائل اور کنزیومرازم کے مقابلے میں اپنی کوئی تہذیبی بنیادوں پر استوار ”چیز” پیش کرنے پڑے گی، اگر ہم اس کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد تہذیب، وثقافت ہر وقت آزمانے کیلئے ہیں جو یقیناً ہیں لیکن ہماری انفرادی واجتماعی زندگی کے معاملات کو ہم نے ایسے ڈگر اور نہج پر ڈالا ہے جو مغربی تہذیب وٹینکالوجی کے سامنے مرعوب اور سرجھکائے ہوئے ہے۔ مغربی علمیت وتہذیب میں اس وقت کمال کی چھا جانے کی طاقت ہے کیونکہ اس کے پیچھے ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے زندگی کے معاملات میں آسانی، سہولت اور آرام ملتا ہے۔ اب یا تو مسلمان دنیا کو دن رات ایک کر کے مختلف شاقہ کے ذریعے مقابلے کی چیزیں پیدا کرنا ہوں گی یا پھر دوسرا طریقہ وہی ہے کہ ”پیچھے کی طرف دوڑ اے گردش ایام تو” اس کیلئے کامل وجامع طرز زندگی اور تہذیب وتمدن وہی تو ہے جو خاتم النبیینۖ امت مسلمہ اور پوری انسانیت کیلئے چھوڑ چکے ہیں۔ سادہ زندگی اور سادہ لائف سٹائل ہمارے بہت سے تہذیبی ومعاشرتی مسائل کا حل ہے۔ اس کیلئے امت کے دینی وتہذیبی رہنماؤں، دانشوروں، علماء اور اساتذہ وحکمرانوں کو صحیح معنوں میں روایتی انداز سے ہٹ کر نبوی منہج پر عوام کو انقلاب کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ ورنہ جزوی بائیکاٹس، احتجاج اور جلوسوں ومظاہروں سے قوم کی توانائیاں تو ضائع ہوتی رہیں گی لیکن ٹھوس نتائج کا حصول دور ہی رہے گا۔اس کے علاوہ کچھ عناصر اور عوامل داخلی بھی ہیں جس نے ہمارے تہذیبی اقدار وروایات بہت کمزور کئے ہیں۔ ان عوامل میں ایک بڑا عامل پاکستان کی بے ہنگم آبادی کی کثرت ہے۔ کثرت آبادی کے سبب تعلیم، صحت، ماحولیات کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے اس کے علاوہ معاشرتی طور پر مالی دباؤ کے تحت ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مہمان نوازی، صدقہ وخیرات اسلامی معاشروں کی پہچان تھی، اب تکلفات اور ریاکاری نے ہماری اسلامی زندگی کے ان شعبوں کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ پہلے جس مہمان کو خدا کی رحمت سمجھا جاتا تھا اب بوجوہ ”زحمت” شمار کیا جاتا ہے اور لوگ کنی کتراتے ہیں، اللہ ہم پر رحم فرمائے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا