tanveer ahmad 27

مہذب دنیا کا وطیرہ

کورونا کی خبریں ایک مرتبہ پھر اخبارات کے پہلے صفحات کی زینت بننے لگی ہیں، ہمارے صوبے میں بھی کورونا اموات میں تیزی آرہی ہے، ایک ہی دن میں 345 نئے کیس سامنے آگئے ہیں، ملک بھر میں فعال مریضوں کی تعداد اس وقت 51ہزار ہے جن میں تین ہزار کے قریب مریض موت وزندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی او پی ڈی کو ابھی تک بند نہیں کیا گیا لیکن اسے ایک ہزار مریضوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کی کوشش ہے کہ او پی ڈی بند نہ ہو وہ تمام تر احتیاطی تدابیر کیساتھ او پی ڈی چلا رہے ہیں۔ یقینا صورتحال پریشان کن ہے، زندگی کے دوسرے مسائل کی موجودگی میں کورونا کا وجود ایک پریشان کن اضافہ ہے، کورونا کی پہلی لہر میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں، اب ہم آہستہ آہستہ کچھ اسی قسم کی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود کورونا کے حوالے سے ابھی بھی مختلف حلقوں سے مختلف قسم کے بیانات سننے کو مل رہے ہیں، لگتا ہے کہ اس حوالے سے سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ صورتحال کی غیر یقینی کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا کے باعث سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر پابندی لگانے کی درخواست مسترد کردی ہے، درخواست گزار کا مؤقف یہ ہے کہ ملک میں بڑے اجتماعات سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے این سی او سی کو حکم دیا جائے کہ وہ کھلی فضا میں منعقد ہونے والے جلسوں سے متعلق گائیڈ لائن پر پابندی کروائے۔ عدالت نے اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تو حکم دیدیا ہے اگر انتظامیہ اس پر عمل نہیں کروا پارہی ہے تو یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ بھی موجود ہے، ایگزیکٹو بھی ہے، سوسائٹی اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی تو عدالت کیوں مداخلت کرے۔ عدالتی حکم پر کوئی بھی عمل نہیں کررہا۔ سیاستدان سیاست میں مشغول ہیں تو ہم کیوں مداخلت کریں، یقینا سیاست ایک لت ہے اور تمام سیاستدان بری طرح اس لت میں مبتلا ہیں۔ آج جب ہم کسی لیڈر کو تقریر کرتے سنتے ہیں اور اس کی سوئی ایک ہی بات پر اٹکی رہتی ہے، ہمارے موجودہ رہنماؤں میں بھی بڑے اچھے مقرر موجود ہیں اور وہ جب تقریر کرتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ یہ بس بولتے ہی رہیں اور ساتھ ہی دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ اگر ان کی تقریر میں بیس فیصد بھی سچائی ہوتی تو وطن عزیز کو کتنا فائدہ ہوتا دکھی عوام کا نصیبہ سنور جاتا لیکن بقول شاعر
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
آج اگر ایک طرف کورونا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کا احتجاج ہے، پی ڈی ایم کے جلسوں کی دھوم مچی ہوئی ہے، آج کل ان جلسوں کی وجہ سے سارے سیاستدان بہت مصروف ہوگئے، ان جلسوں کی حمایت اور مخالفت میں ہر قسم کے دلائل دئیے جارہے ہیں، کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ دونوں طرف سے جو دلائل آرہے ہیں ان میں اچھی خاصی جان ہے، ویسے ہمیں تو ذاتی طور پر اس بات کا دکھ ہے کہ سیاستدان اس نازک صورتحال میں بھی ایک دوسرے کیساتھ مشت وگریباں ہیں، آخر وہ وقت کب آئے گا جب انتخابات کے بعد ہمارے سیاستدان اپنی ساری توانائیاں عوامی فلاح وبہبود کے کاموں پر صرف کریں گے۔ سیاستدان ایک دوسر ے پر مثبت تنقید کرتے ہیں، پرمغز دلائل دئیے جاتے ہیں، اللہ کرے کہ پاکستان میں صاف شفاف الیکشن کی روایت پڑ جائے تو ہمارے ہاں صحت مند جمہوریت کا سفر کتنا خوشگوار ہو جائے گا ہمیں مخالفت برائے مخالفت کی سیاست سے اجتناب برتتے ہوئے اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے پر توجہ دینی چاہئے ان کے تحفظات دور کرنا بہت ضروری ہے، اسی سے جمہوریت کا پودا مزید توانا ہوگا اور اگر یہ سلسلہ ایک مرتبہ چل نکلا اور تواتر کیساتھ اپنے وقت پر انتخابات ہوتے رہے تو یقینا اچھے لوگ سامنے آئیں گے، تطہیر کا عمل شروع ہو جائے گا بس جمہوریت کا سفر رکنا نہیں چاہئے۔ سیاستدانوں کو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے ہمارا شمار اسی وقت مہذب اقوام میں ہو سکتا ہے جب ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہمارا سیاسی نظام مضبوط ہے، ہم تنقید کرتے بھی ہیں اور تنقید برداشت بھی کرتے ہیں اور یہی مہذب دنیا کا وطیرہ ہے۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام