4 244

حکومت مخالف اتحاد اور تحریکیں

پاکستان میں عوام کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ان کو منتخب حکومتیں جب بھی ملی ہیں اُن کیخلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے یہ سوچے بغیر کہ کل ان کیخلاف بھی اتحاد بن کر تحریکیں چل سکتی ہیں ہمیشہ تحریکیں برپا کرنے میں بڑی جلدی کیہے۔ پاکستان میں قائد ملت خان لیاقت علی خان کو ”برادران ملت” کہنے کیساتھ ہی سیداکبر خان ببرک نے جس بیدردی کیساتھ شہید کیا وہ دن اور آج کا دن ہمیں کوئی مستحکم حکومت نہیں ملی ہے۔ پاکستان میں پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کیخلاف اس کے اندرونی خلفشار اور انتشار کے باعث بنگال (مشرقی پاکستان) کی سرزمین سے جو پہلا اتحاد وجود میںآیا اُس میں چار سیاسی جماعتیں عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام، جنتا دل اور کرشک پراجا، دی یونائٹڈ فرنٹ کے نام سے بنا تھا۔ اس اتحاد میں مسلم لیگ کے منجھے ہوئے سیاستدان حسین شہید سہروردی بھی اپنی پارٹی چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ میں شامل ہو کر صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو بہت بری شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ پاکستان میں دوسرا بڑا اتحاد ایوب خان کی دس سالہ اقتدار کیخلاف متحدہ اپوزیشن کے نام سے محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں سامنے آیا تھا۔لیکن فوجی قوت کے سامنے فاطمہ جناح کی لالٹین کی روشنی شعلہ جوالہ بننے میں ناکام ہوئی۔
پاکستان میں نوابزادہ نصراللہ خان کا نام حکومتوں کیخلاف اتحاد بنانے والوں میں جلی حروف سے لکھا جاتا ہے۔ ایوب خان کیخلاف بھی 1967ء میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جو اتحاد بنا اُس کے روح رواں نواب صاحب تھے اور اسی اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر تو مجبور کیا لیکن اس کا پھل یحییٰ خان کی جھولی میں گرا اور جنرل یحییٰ خان نے جو انتخابات کروائے اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ 1971ء کے بعد پی پی پی کو بھٹو کی قیادت میں اقتدار ملا تو پانچ برس کی عوامی حکومت کے بعد 1977ء میں جو انتخابات ہوئے اُس میں بھٹو کیخلاف نیشنل الائنس(پی این اے) میں نو سیاسی جماعتیں ایک ہوئی تھیں لیکن انتخابات میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی اور صرف 36نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور پھر اس اتحاد نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ملک میں سول نافرمانی شروع ہوئی اور بڑے شہروں میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ پی این اے اور پی پی پی کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اہم نکات پر اتفاق بھی ہوچکا تھا لیکن پھر ”لائن کٹ گئی” اور جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ تحریک نظام مصطفیٰ کی ناکامی کے بعد اب میں اس کو نافذ کروں گا لیکن دس گیارہ برس بعد بھی اسلام یا شریعت کا نفاذ تو نہ ہوا البتہ ضیاء الحق بہم اپنے افسران کیساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اس کیساتھ ہی پاکستان میں بینظیر شہید، نوازشریف اور بعض دیگر سیاستدانوں کی صورت میں نئی قیادت سامنے آئی جو حقیقت میں ضیاء الحق کے دور تک کے سیاستدانوں کے پاسنگ بھی نہیں تھے لیکن عوام نے اُن کو بہرحال قبول کیا، تب دونوں سیاسی جماعتوں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو دو دو تین تین برس حکومتوں میں عوام کو ان کی حکومتوں سے ووٹ ڈالنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا لیکن ہماری قوم بھی خاموش کہاں بیٹھنے والی ہے، نواب نصراللہ خان کی قیادت میں نواز شریف کیخلاف گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بنا جس کا نتیجہ مشرف مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر پندرہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل اے آر ڈی (تحریک جمہوریت) وجود میں آئی، جنرل مشرف کے بعد پی پی پی اور نواز لیگ پانچ پانچ برس حکومت کرنے میں تو کامیاب ہوئے لیکن دونوں سے تنگ آئے عوام نے پی ٹی آئی کو تیسری قوت کے طور پر منتخب کیا۔ بھلے آج کی اپوزیشن اسے سلیکٹڈ حکومت کہے لیکن پاکستان میں اس الزام سے کون مبرا ہے۔ اب پی ڈی ایم نے پھر حکومت کیخلاف میدان سجا لیا ہے۔ جلسے،بیانات اور سوشل میڈیا پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کے خوب لتے لئے جارہے ہیں لیکن کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومتوں میں عوام کو وہ کونسی سہولیات فراہم کی تھیں جو آج عمران خان کی حکومت نہیں کر سکی ہے۔لیکن کیا اس کا علاج یہی ہے کہ پی ڈی ایم کی صورت میں پھر ان موروثی سیاسی جماعتوں کی ناتجربہ کار قیادت ہی کو اقتدار سونپا جائے ، اپوزیشن ہوش کے ناخن لے اور پی ٹی آئی کو ڈھائی برس گزارنے دیں تاکہ عوام ان سے خوب ”پرباش” ہو جائیں اور اپوزیشن کو پیار کیساتھ اگلے انتخابات میں دوتہائی اکثریت کیساتھ کامیاب کرلے ورنہ خدا نہ کرے اگر پی ڈی ایم اپنی ضد اور انا پر قائم ہوکر خواہ مخواہ اس حکومت کو گرانے کے پیچھے لگی ہے تو کہیں خدانخواستہ حادثہ بھی ہوسکتا ہے جس میں حزب اقتدار اور اختلاف کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں