editorial 5 6

سب کچھ سابقین پر کب تک ڈالا جاتا رہے گا؟

بہتر برسوں کی لوٹ مار اور مسائل کے انبار کی تکرار سے پیدا ہوئی تلخی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ کمزور معیشت’ عدم تحفظ’ غربت و بیروزگاری اور دیگر مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرانا کچھ درست بھی ہے لیکن سیاسی فیشن بھی۔ عدم برداشت پر مبنی سیاسی فیشن نے پاکستان اور اس کے شہریوں کو کیا دیا یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے ہر دور کے حکمران آنکھیں چراتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بہتر برس دھول ہی نہیں ہوئے انہی برسوں کے دوران 1973ء کا دستور بنا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔ ون مین ون ووٹ کے حق نے پارلیمانی جمہوریت کی طرف سفر شروع کیا۔ ان برسوں کے دوران ہی پاکستانی ہنرمندوں اور دیگر افراد پر بیرون ملک خصوصاً خلیجی ممالک میں روزگار کے دروازے کھلے۔ یہ بجا ہے کہ کرپشن نے بنیادیں کھوکھلی کیں مگرکیا کرپشن صرف سیاستدانوں نے کی؟ دوسرے شعبوں اور ریاستی اداروں میں ان بہتر برسوں کے دوران کیا ہوا۔ کیا محض سیاسی عمل کی ناکامی نے 4مارشل لاؤں کے دروازے کھولے؟ یا اقتدار کے کل اختیارات پر دسترس کی خواہش نے ملک اور عوام کے 36برس برباد کئے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جب کسی بھی سمت سے بہتر برسوں کے برباد ہونے کی دھواں دھار باتیں کی جاتی ہیں تو ہمنواؤں کی سنگت اس کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہراتی ہے حالانکہ ان بہتر برسوں میں 36برس غیر منتخب قوتیں اقتدار پر قابض رہیں۔ طبقاتی بالادستی’ فرقہ پرستی اور عسکریت پسندی کو دوام غیر جمہوری ادوار میں ملا۔ سیاستدان یا دوسرا کوئی طبقہ مکمل طور پر مجرم ہے نا سادھو غلطیاں انسان کرتے ہیں اور انسان ہی غلطیوں کے سدھار کیلئے اقدامات بھی۔ پاکستانی سیاست اور نظام حکومت کا المیہ یہی ہے کہ اس میں اپنی ذات، طرز سیاست اور حکومت کے کج کوئی نہیں دیکھتا البتہ اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر حقائق کو مسخ کرنے کا رواج عام ہے۔سابق حکمران جماعتیں فرشتوں پر مشتمل نہیں تھیں مگر کیا موجودہ حکمران قیادت اجتماعی طور پر گنگا نہائی ہوئی ہے؟ مروجہ سیاسی عمل کے خمیر سے گندھی حکمران قیادت کو لکیریں پیٹنے اور ماضی کا سیاپا کرنے کی بجائے آگے بڑھنا ہوگا۔ مسائل ہیں اور ان کی سنگینی سے بھی کسی کو انکار نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ خود کو ماڈریٹ سیاسی جماعت اور قیادت کے طور پر پیش کرنے والوں کے پاس اصلاحات کے ابتدائی لوازمات کیا تھے اور ہیں۔ایک نہیں انگنت معاملات ایسے ہیں جن کے حوالے سے موجودہ حکمران قیادت کا ماضی میں موقف کچھ اور تھا اور اب یکسر مختلف۔ مثلاً ماضی میں کہا جاتا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومتی کمائی عوام کی کھال اُتارنے کی ظالمانہ کوشش ہے۔ اب عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کاحقیقی فیض اپنے صارفین کو کیوں نہیں دیا جا رہا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ زمانہ اپوزیشن میں وہ جو بلند وبانگ دعوے کرتے اور مخالف پر الزامات لگاتے ہیں عملی دنیا (دور حکومت) میں وہ خود اس کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اندریں حالات یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ماضی کو رونے پیٹنے اور مخالفین کی بھد اُڑانے کا شوق ضرور پورا کیجئے لیکن اپنی اصل ذمہ داریوں پر بھی توجہ دیجئے تاکہ تبدیلی کی کوئی مؤثر صورت بنتی دکھائی دے۔ عوام روزمرہ کے معاملات میں بدلاوا محسوس کریں۔ مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ الزاماتی سیاست سے جان چھڑا کر اصلاحات واقدامات کے عمل کا آغاز کیا جائے۔
سابق حکمران جماعتوں کو ناکام محض انتخابی نتائج پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی سیاسی وحکومتی ناکامیوں کو اپنی کامیابیوں سے ہی ثابت کرنا ہوگا۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ بہتر برسوں میں گند ہی تو ڈالا گیا۔ یہاں کس میں یہ جرأت رندانہ ہے کہ وہ گند ڈالنے والے سارے کرداروں کے بارے یکساں رائے کا اظہار کرے؟ اس لئے بہتر یہی ہے کہ جن لوگوں کی کرپشن کے ثبوت موجود ہیں ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ احتساب کے عمل میں پسند وناپسند ہرگز کارفرما نہیں دکھائی دینی چاہئے۔ بلاامتیاز احتساب بہت ضروری ہے اور یہ بھی کہ یکساں احتساب۔ پارلیمان تمام اداروں کو یکساں احتساب کے دائرے میں لائے۔ قوانین میں ترامیم یا نئی قانون سازی کی ضرورت ہے تو پارلیمان میں موجود جماعتوں سے بات چیت کیجئے۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کی اپوزیشن کو بھی ٹھنڈے دل سے سیاسی عمل کو آگے بڑھانا چاہئے جو اب آں غزل ان کا حق ہے البتہ تلخیوں اور دشنام طرازی کی دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ حرف آخر یہ ہے کہ ان کالموں میں تواتر کیساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ پارلیمانی نظام میں وفاق کی بالادستی کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ وفاق اپنی اکائیوں کا سرپرست ہوتا ہے۔ 18ویں ترمیم میں طے ہوئے معاملات کو چھیڑنے کی خواہش اپنی ہے یا کسی کی خوشی کیلئے ایڈونچر کا فرض نبھانا ہے ہر دو صورتوں میں یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ اٹھارہویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ طے شدہ آئینی معاملات کو نہ چھیڑا جائے بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''