2 195

سندھی چینی بمقابلہ وفاقی چینی

وفاقی حکومت نے سندھ میں تبدیلی کے امکانات معدوم دیکھ کر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے جسد کے نرم حصے یعنی سافٹ بیلی آصف علی زرداری اور ان کے شوگر بزنس کو ٹارگٹ بنایا، یادش بخیر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی سندھ اور وفاق میں چینی کے مسئلے پر بحث مباحثہ پر تبصرہ کرتے تو کہتے چینی تو چینی ہوتی ہے چاہے وہ سندھی چینی ہو یا وفاقی چینی ہو یا پھر پنجابی چینی مگر حقیقت بالکل مختلف ہے۔ وفاق کی چینی کا معاملہ الگ ہے، پنجاب کی چینی کا معاملہ اور ہے اور سندھ کی چینی کا معاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ اور وفاق کی طرف سے دی گئی سبسڈی پر اختلافات میں سیاست کارفرما ہے۔ اس حوالے سے کئی سازشی کہانیاں گردش میں ہیں۔ پہلی کہانی تو یہ ہے سندھ نے کورونا کے معاملہ میں جو اچھا امیج بنایا ہے اس کا توڑ کیا جائے۔ سندھ حکومت کیخلاف الزامات میں اصل ٹارگٹ اومنی گروپ یا آصف علی زرداری ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کی شدید بیماری اور موت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ زرداری اشتعال میں آ کر یا رد عمل دکھا کر کسی سیاسی سرگرمی میں شریک ہوں اور یوں ان کی گرفتاری کا جواز بن جائے جبکہ دوسری طرف آصف علی زرداری بھی سیاسی داؤ پیچ کے ماہر ہیں وہ نہ تو اشتعال میں آرہے ہیں اور نہ ہی رد عمل دکھانے کو تیار ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ابھی دو تین ماہ سیاست میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں، اسلئے پس منظر میں رہنا ہی فائدہ مند ہے۔ اسلام آباد کی سازشی راہداریوں میں یہ سرگوشیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ سندھ میں کورونا کے حوالے سے بہترین انتظامات اور پھر میڈیا میں اس کے مثبت تاثر کو پیدا کرنے میں سندھ کے طاقتور ادارے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اسلام آباد کی سیاسی حکومت کو اس حوالے سے معلومات ملیں تو پھر اس کا توڑ کرنے کی کوشش کی گئی۔ چینی سکینڈل پر سندھ حکومت اور وفاق میں محازآرائی کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑی تصویر کو دیکھا جائے تو شوگر کمیشن انکوائری رپورٹ نے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا رگڑا نکال دیا گیا ہے۔ عمران خان نے کولیٹرل ڈمیج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی مگر فرینڈلی فائر کی زد میں آنے والے مخدوم خسرو بختیار، اسد عمر اور وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار کیلئے آنے والے دنوں میں مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں۔ نون لیگ کا شریف خاندان ہو، پیپلز پارٹی کا زرداری خاندان ہو یا پھر پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین، خسرو بختیاراور مونس الٰہی، سبھی شوگر کارٹل سے فائدہ اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔عمران خان نے کولیٹرل ڈمیج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی مگر فرینڈلی فائر کی زد میں آنے والے مخدوم خسرو بختیار، اسد عمر اور وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار کیلئے آنے والے دنوں میں مشکلات بھی پیدا کر دی گئی ہیں۔ پاکستان میں بد قسمتی یہ ہے کہ زراعت سے جڑی صنعتیں اور سرکاری محکمے سادہ لوح کاشتکار کا شدید استحصال کرتے ہیں۔ سبزی منڈیاں اور فروٹ منڈیاں کاشتکاروں سے سستے داموں میں خریدتی ہیں اور مہنگے داموں بیچتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مڈل مین سب سے زیادہ امیر ہے جبکہ کاشتکار سب سے غریب۔ یہی حال پٹوار اور تھانے کا ہے، دونوں دیہی آبادیوں اور کاشتکاروں کا استحصال کرتے ہیں۔ گنا، گندم، کپاس اور چاول ہمارے خطے کی بڑی فصلیں ہیں۔ گندم، کپاس اور چاول تو صدیوں سے آڑھتی خریدتے ہیں جبکہ گنا براہ راست کاشتکار سے مل خریدتی ہے۔ ادائیگیوں میں تاخیر، سرکاری قیمت سے کم قیمت میں خرید، ڈی زوننگ اور پھر سب سے بڑھ کر حکومت سے سبسڈی یہ سب پیسے بنانے کے گر ہیں۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے نام شوگر ملز کے اونر ہیں۔ شوگر انڈسٹری کو مراعات بھی انہی سیاستدانوں کی سرپرستی کی وجہ سے ملتی ہیں وگرنہ کئی انڈسٹریاں تباہ ہو گئیں، کئی ایک کو نقصان ہوا لیکن ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں۔ پاکستان میں بد قسمتی یہ ہے کہ زراعت سے جڑی صنعتیں اور سرکاری محکمے سادہ لوح کاشتکار کا شدید استحصال کرتے ہیں، پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ کی انصافی قیادت کو علم ہے کہ صوبہ سندھ میں سیاسی تبدیلی لانا بہت مشکل ہے۔ تبدیلی تبھی ممکن ہے کہ مقتدر قوتیں آئین اور قانون کی حدود پار کر کے جام صادق یا ارباب غلام رحیم والا ماحول واپس لائیں لیکن مقتدر طاقتیں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کیساتھ ایسی خفگی نہیں رکھتیں کہ سندھ حکومت کو ہٹانے کے در پے ہو جائیں۔ وفاقی حکومت نے سندھ میں تبدیلی کے امکانات معدوم دیکھ کر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے جسد کے نرم حصے یعنی سافٹ بیلی آصف علی زرداری اور ان کے شوگر بزنس کو ٹارگٹ بنایا۔ بقول وفاقی حکومت کے ترجمانوں کے آصف زرداری سندھ میں18شوگر ملز کے مالک ہیں اور اسی طرح پنجاب میں شریف خاندان کی بھی کئی شوگر ملز ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو کرپشن کا بیانیہ سیاسی طور پر بہت راس آتا ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس کو یہ بیانیہ اس لئے اچھا لگتا ہے کہ ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی محرومیوں کے ذمہ دار نواز شریف اور آصف زرداری ٹھہرتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی تسلسل کی وجہ سے تساہل کا شکار نظر آتی ہے، اس کی وجہ وفاق سے ملنے والا سندھ کا کم حصہ(شیئر)ہے۔ معاشی تنگ دستی کے باوجود مراد علی شاہ نے سڑکوں کی تعمیر، تھر کی ترقی اور شعبہ صحت میں ایسے کام کر دکھائے ہیں جس سے وفاق پر سیاسی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اسی لئے وفاق سندھ حکومت پر کرپشن اور نا اہلی کے الزام لگا کر اپنے بیانئے کو سچا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ (بشکریہ بی بی سی)

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!