1 187

نااہلی کے سبب لاحق خطرات

ہمیں شاید اس بات کا اندازہ نہ ہو مگر نااہلی ایک ایسی چیز ہے جو بچے اور جانور تک بھانپ لیتے ہیں۔ کوئی بھی ناتجربہ کار شخص انہیںکسی بھونڈے طریقے سے اُٹھائے تو وہ رونے لگتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اب پاکستانی قوم بھی وفاقی حکومت کی قائدانہ صلاحیتوں پر سوال اُٹھانے لگی ہے۔ قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور یہ ادراک کہ عمران خان کا تارکین وطن سے پیسہ پاکستان لانے کا خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا، ان مسائل کا آغاز کا سبب بنا۔ انہیں اس بات کا بھی خوب ادراک ہوگیا کہ انصاف کی فراہمی کے نام پر مخالفین کیخلاف ایسی انتقامی کارروائیاں جاری ہیں جن کیساتھ کسی بھی قسم کی مثبت روایات کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کارروائیوں نے شہریوں کو اس کی شفافیت کے بارے مزید شبہات کا شکار کر دیا ہے۔ وہ اس بات کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آیا اس احتساب کے عمل سے اب تک انہیں یا ملک کو کوئی رتی برابر بھی فائدہ پہنچا یا یہ صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم درتقسیم اور تلخی کا ہی سبب بن رہا ہے۔ ہمیں اس وقت اتنے مسائل کا سامنا ہے کہ ہم ایسی کسی بھی قسم کی تقسیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ہمارے اردگرد مسائل کا انبار موجود ہے، یہ یکے بعد دیگرے سر اُٹھاتے رہے اور بیشتر تو صرف اور صرف حکومت کی اپنی ہی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں یکے بعد دیگرے آٹا بحران، چینی بحران، پیٹرول بحران اور ادویات کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ایک کے بعد ایک ناکامی بھی ہماری راہ میں حائل رہی۔ پشاور بی آر ٹی منصوبہ اب تک مکمل نہ ہوسکا اور وزیراعظم کے سوشل میڈیا کی مقبول شخصیات کے ذریعے پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے اعلان نے بھی مختلف سوالوں کو جنم دیا کہ ابھی ہمارے پاس بیرون ملک سے آئے سیاحوں کی تفریح کیلئے دستیاب سہولیات ہی ناکافی ہیں۔ حکومت کی صدراتی حکم ناموں کے ذریعے قانون پاس کرنے کی روش کسی بھی طور پارلیمانی جمہوریت کے فروغ کیلئے موزوں نہیںاور نہ ہی ایسے اس ایوان کی عزت وتوقیر ہوتی ہے جس نے وزیراعظم کو منتخب کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ان ویڈیوز کا بھی تنازعہ کھڑا تھا جس میں کچھ جوان خواتین کی اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک رسائی کا بھید کھلا۔ بڑبولے، متکبر اور متعصب وزراء سبکدوش ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد کابینہ میں لوٹتے نظر آئے۔ اس سب کے علاوہ ہم وزیراعظم کی جانب سے لاتعداد یوٹرن اور کابینہ میں بڑھتے آپسی اختلافات کو بھی بالکل نہیں بھول سکتے۔
عوام کیلئے یہ سب ہضم کرنا کچھ آسان نہیں اور اس کیساتھ آئے دن ذرائع ابلاغ پر لگتی پابندیاں اور نیب کا ناجائز استعمال بھی ان کیلئے کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں۔ نیب کے حوالے سے تو یہ حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے کہ اس ادارے کو بدعنوانی کے خاتمے کی بجائے مخالفین سے انتقام اور انہیں ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس تاثر نے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایک کے بعد ایک ہوتی ناکامیوں اور اس تمام تر تباہی کا ذمہ بھی پچھلی حکومتوں پر ڈالنا آسان ہے مگر اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ پچھلے بائیس سالوں سے حکومت کیلئے کوشاں تحریک انصاف اب تک ان مسائل کے حل کیلئے کوئی مؤثرلائحہ عمل تجویز کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ گورننس ناقص اور متعصب احتساب اور حزب اختلاف کیساتھ برے سلوک کا ہی نام نہیں، یہ اس سے کئی بڑی چیزوں کی متقاضی ہوتی ہے اور یہ بھی کہ بداخلاقی اور عامیانہ گفتگو کسی طور بھی مسائل کے حل میں مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی وزیراعظم ہر میدان میں کامیاب نہیں ہوتا، کچھ انفرادی حیثیت میں چند کامیابیاں سمیٹ لیتے ہیں مگر ایسی محدود کامیابیوںکے حامل افراد بھی کم ازکم ایک اچھی ٹیم تشکیل دینے میں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہم موجودہ صورتحال میں ایک اچھی ٹیم سے محروم ہیں، غیرمنتخب شدہ ماہرین، جو دنیا بھر سے مختصر مدت کیلئے ملک میں آئیں، کم ہی کوئی کارکردگی دکھا پاتے ہیں اور ہم ابھی اسی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی بہت سارے معاملات میں تاخیر کا شکار ہیں مگر کیا اس تمام تر صورتحال کے مزید بگڑنے سے پہلے عمران خان اور ان کے نزدیکی ساتھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک کر پائیں گے؟
اس کے علاوہ بھی کئی ایسی چیزیں ہیں جن میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم اب تک اس ”نئے پاکستان” کی تشکیل دیکھنے سے محروم رہے ہیں جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ مائنس ون اور اس جیسے کئی فارمولوں کا بازگشت اب سنائی دینے لگی ہے البتہ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ہم ملک کو مزید کسی نقصان سے پہلے بچا لینے میں کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں اور اس کیلئے حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ پارلیمان کوئی اکھاڑا نہیں بلکہ مکالمے اور مشاورت کی جگہ ہے۔ یہاں حزب اختلاف کو وہ احترام ملنا چاہئے جس کا وہ ملک کی ایک بڑی تعداد کے نمائندے ہونے کے ناتے حق رکھتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب قیادت عوام کے غیض وغضب سے بچنے کیلئے کمر بستہ ہو کر مسائل کے حل کے ایک لمبے سفر پر پیش قدمی شروع کر دے۔
(بشکریہ دی نیوز، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار