1 209

کرپشن سب سے بڑا کاروبار

پاکستان میں کرپشن کیخلاف آج تک جتنے منصوبے تشکیل دئیے گئے ہیں وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے ہیں کیونکہ ان منصوبوں میں کہیں نہ کہیں جانبداری کا پہلو پایا جاتا تھا، موجودہ حکومت پر ہی کیا موقوف ماضی کی ہر حکومت چاہے وہ مارشل لاء کا دور تھا یا جمہوری دورحکمرانی تھا، اس میں سیاسی مخالفین کو تختہ مشق بنایا گیا، سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگا کر انہیں پس زنداں ڈالا گیا، جس کا واحد مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا تھا، بھلا کسی لیڈر پر بھینس چوری کا مقدمہ بھی بنایا جاسکتا ہے لیکن ہماری سیاسی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ سیاسی مخالفین پر بہت ہی سطحی اور بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے، کیا ایسے حالات میں کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں رشوت اور کرپشن سے بہتر کوئی کاروبار نہیں ہے۔ 20ہزار کی سرکاری ملازمت کیلئے 20لاکھ رشوت لی جاتی ہے لہٰذا رشوت سے ملازمت حاصل کرنے والا اس رقم کو 6ماہ میں ہی وصول کرنے اور اس انوسٹمنٹ سے منافع کمانے کیلئے دن رات کرپشن کرتا ہے۔ اب بھی بظاہر کرپشن کیخلاف پاکستان میں حکومتی مہم جاری ہے لیکن کرپشن کیخلاف کوئی واضح پلان یا گائیڈ لائن نہ ہونے کے باعث اس مہم کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ شاید اسی بات کے پیشِ نظر وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ چین کے دوران اعلان کیا تھا کہ ”پاکستان کرپشن کیخلاف چین کے تجربات سے فائدہ اُٹھائے گا” پاکستان میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے بلاشبہ چینی ماڈل کو انتہائی اہم قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا کی قریب ترین سیاسی تاریخ میں چین ہی وہ واحد ملک ہے جس نے کرپشن کے خاتمہ میں حقیقی معنوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چین میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے کمیونسٹ پارٹی نے ”شوآنگ گوئی” نامی نظام1990ء میں متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو سزا دینا تھا تاکہ رشوت ستانی اور کرپشن کے اس رجحان کو ختم کیا جا سکے جو چین میں تیزرفتار اقتصادی ترقی کے شروع کے دور میں بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ اس نظام کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد یا ملزم کی حراست غیرمعینہ عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ایسے افراد کے اہل خانہ کو اکثر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے تحویل میں لئے گئے رشتہ داروں کیساتھ کیا ہوا ہے یا وہ کہاں ہیں۔ چین میں کرپشن کیخلاف مہم میں سب سے زیادہ تیزی2012 میں صدر شی جن پنگ کی قیادت میں آئی اور2013ء سے2017ء تک13لاکھ 40ہزار افرادکو کرپشن کے الزام میں سزا بھی مل چکی ہے۔ انسداد کرپشن کا ”چینی نسخہ” کتنا زیادہ سریع الاثر ہے اس کا اندازا صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ2017ء کے صرف پہلے6ماہ میں13لاکھ10ہزار سے زائد متاثرین نے کرپشن کیخلاف شکایات سینٹرل کمیشن آف ڈسپلن انسپکشن میں درج کروائیں۔ ان میں سے2لاکھ60ہزار لوگوں کیخلاف کارروائی شروع ہوئی اور2لاکھ10ہزار مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ ان سزا پانے والوں میں صرف کمزور اور چھوٹے سرکاری افسر شامل نہیں تھے بلکہ ان میں وزارتوں اور صوبائی انتظامیہ کے38سینئر افسران سمیت ایک ہزار انتہائی طاقتور خیال کئے جانے والے افراد بھی شامل تھے۔ مثال کے طور پر چینی وزیر ریلوےzhijun جنہیں چین کا کامیاب ترین وزیر بھی سمجھا جاتا تھا۔ انہیں کمیشن لینے، عہدے کے غلط استعمال اور سامان کی خریداری میں کرپشن کے الزام پر ان کی ماضی کی خدمات اور ریلوے کی ترقی کیلئے کی گئی محنت اور حکومتی پارٹی کیساتھ تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کیخلاف مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنا دی گئی۔ ایسی ہی ایک عبرتناک مثال چینی افوج کے سابقہ جنرل کی بھی ہے جن کو رشوت لینے کے الزام میں نہ صرف عمر قید کی سزا دی گئی بلکہ انہیں اپنے عہدے سے فارغ کر کے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے تمام اثاثے بھی چینی حکومت کے نام کریں۔ اس وقت بھی چین میں انسداد کرپشن اور بدعنوانی کیخلاف تنبیہ کے طور پر ہر ماہ درجنوں حکومتی عہدیداروں اور ان کے اہل خانہ کو ”جیل کی سیر” باقاعدگی کیساتھ کروائی جاتی ہے۔ اس دوران ان کی ملاقات کرپشن کے الزام میں قید بھگتنے والے سابقہ سرکاری عہدیداروں سے بھی کروائی جاتی ہے۔ ایک طرح کی تعلیمی وتربیتی تنبیہ کے طور پر ان تمام افرادکو اپنا پورا دن جیل میں گزارنا ہوتا ہے۔ اس خصوصی ”سیر” کے دوران جیل کی دیواروں پر ملزموں سے کی جانے والی تفتیش کی تصاویر بھی آویزاں ہوتی ہیں تاکہ دورے پر جانے والے حکومتی افراد اور ان کے اہلِ خانہ ان تصاویر کو دیکھ کر عبرت حاصل کرسکیں۔ اگر پاکستان سے کرپشن کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ بے رحمانہ احتساب کا آغاز کیا جائے سیاسی مخالفین کو دبانے اور ان پر مقدمات قائم کرنے کی بجائے سرکاری عہدوں پر قائم موجودہ کرپٹ افسران اور اہلکاروں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے بلکہ چین کی طرز پر سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو اس جیل کی سیر بھی کرائی جائے جہاں کرپٹ افسران اور اہلکاروں کو رکھا گیا ہے، چین ٹھوس لائحہ عمل اور قابل عمل سزاؤں سے کرپشن کو ختم کرسکتا ہے تو ہم بھی انہی نسخوں پر عمل کر کے کرپشن کو ختم کر سکتے ہیں شرط مگر یہ ہے کہ بے لاگ احتسابی عمل کا آغاز کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا