p613 83

سوموار کا سانحہ چمن

بلوچستان کے افغان سرحد سے ملحقہ شہر چمن کے مال روڈ پر گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے میں ایک بچے سمیت 6افراد شہید اور21زخمی ہوئے، زخمیوں میں سے12 کی حالت نازک ہے۔ دھماکہ خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب تھا، حکام کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اے این ایف کی گاڑی کو نشانہ بنانا تھا۔ زخمیوں میں اے این ایف کے تین اہلکار بھی شامل ہیں۔ چمن بم دھماکے کی بدولت پورا شہر سوگوار ہے۔ افغان سرحد سے ملحقہ شہر میں دہشت گردی کی یہ پہلی واردات نہیں قبل ازیں بھی اس طرح کی افسوسناک واقعات ہوتے رہے ہیں۔ غورطلب امر یہ ہے کہ سرحدی شہر اور خصوصی اہمیت ہر دو کے ہوتے ہوئے دہشت گردا پنی کارروائی میں کامیاب کیونکر ہوئے، انہیں اندرونی تعاون حاصل تھا یا خود ملک دشمنوں کے شہرو مضافات میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب تحقیقات کے بعد ہی ملے گا، فی الوقت ہم یہی عرض کر سکتے ہیں کہ چمن میں امن وامان کے قیام اور دہشت گردوں کی مزید کارروائیوں کو روکنے کیلئے جن ضروری اقدامات کی ضرورت ہے وہ بلاتاخیر اُٹھائے جائیں۔ گو ابتدائی معلومات سے یہ لگتا ہے جیسے سمگلروں کے کسی نیٹ ورک نے اے این ایف کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن اس پر مکمل طور پر انحصار سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ کسی تاخیر کے بغیر اس واردات کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے تاکہ مجرموں کو بے نقاب کر کے کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔
پنجاب کی چونکا دینے والی آڈٹ رپورٹ
پنجاب میں مالی سال2019/20 کی آڈٹ رپورٹ میں229ارب44کروڑ کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، آڈٹ رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں مواصلات، ہائوسنگ، آبپاشی، بلدیات، انرجی اور تعلیم کے شعبوں میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں جبکہ سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر بھرتیاں بھی کی گئیں۔ پنجاب کے محکمہ خزانہ نے آڈٹ رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کاجائزہ لیا جارہا ہے۔ کرپشن کے خاتمے، فنڈز کے شفاف انداز میں استعمال، اقربا پروری، اختیارات سے تجاوز کے خاتمے کے نعروں پر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کیلئے پنجاب کے پچھلے مالی سال کی یہ رپورٹ سنگین دھچکہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ”شفاف قیادت” کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ 229ارب 46کروڑ اور99ہزار روپے کی کرپشن وبے ضابطگیاں تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ذمہ داروں کیخلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
بد ترین مہنگائی کی لہر
وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ پشاور میں 20کلو آٹے کا تھیلہ 1280روپے، کراچی میں1400روپے، سکھر میں1240روپے، بنوں میں 1200روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ راولپنڈی، اسلام آباد میں 20کلو تھیلہ900روپے میں دستیاب ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف آٹے کی قیمت کے حوالے سے رپورٹ ہے ورنہ پچھلے ساڑھے پانچ ماہ کے دوران ہوئی بد ترین مہنگائی نے ملک کی مجموعی آبادی کے لگ بھگ60فیصد حصے کو جس بری طرح متاثر کیا اور اس کیلئے سنگین مسائل پیدا کئے وہ ایک تلخ حقیقت کے طور پر سب کے سامنے ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ آخر صوبائی حکومتیں روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے اور مقررہ حکومتی نرخ پر ان کی فروخت کو یقینی بنانے میں کیوں ناکام ہیں؟ گو اس حوالے سے بہت کچھ عرض کیا جاسکتا ہے مگر فی الوقت یہی ہے کہ صوبائی حکومتیں عوام کو منافع خور لیٹروں سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں اور مصنوعی مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے مؤثر ترین اقدامات کریں تاکہ معاشرے کے نچلے طبقوں پر مہنگائی کی وجہ سے زندگی کے دروازے بند نہ ہونے لگ جائیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے