2 153

مشرقیات

حضرت اشعث بن قیس اور حضرت جریر حضرت سلمان فارسی سے ملنے کے لیے آئے ۔ وہ شہر مدائن کے کنارے ایک جھونپڑی میں تھے ۔ دونوں جھونپڑی میں چلے گئے ۔ دونوں نے انہیں سلام کیا اور کہا :” خدا آپ کو زندہ رکھے ، کیا آپ ہی سلمان فارسی ہیں ”۔
حضرت سلمان فارسی نے کہا :”جی ہاں !”
ان دونوں نے کہا :
” کیا آپ حضورۖ کے ساتھی ہیں”۔
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا :
”معلوم نہیں ”۔
انہیں شک ہوگیا کہ شاید یہ حضرت سلمان فارسی نہیں ہیں ۔۔کہنے لگے :
” شاید یہ سلمان فارسی نہیں ہیں ”۔
انہوں نے فرمایا : ” میں ہی وہ شخص ہوں جس سے تم ملنا چاہتے ہو ۔ میں نے حضورۖ کو دیکھا ہے ۔ آپ کی مجلس میںبیٹھا ہوں ۔لیکن حضورۖ کا ساتھی وہ ہے جو حضورۖکے ساتھ جنت میں چلا جائے ۔ ( یعنی جس کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے اور مجھے اپنے خاتمے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ) ۔
حضرت سلمان فارسی نے پوچھا :
”آپ دونوں میرے پاس کس ضرورت سے آئے ہو ”۔
وہ کہنے لگے :” ملک شام میں آپ کے ایک بھائی ہیں ، ہم ان کے پاس سے آپ کے پاس آئے ہیں ”۔ حضرت سلمان فارسی نے پوچھا : ”کون ہیں ”۔
دونوں نے ایک ساتھ کہا : ”وہ حضرت ابو الدردا ی۔ ” حضرت سلمان فارسی نے فرمایا : ” انہوں نے جو ہدیہ تم دونوں کے ہاتھ بھیجا ہے ، وہ کہا ں ہے”۔ انہوں نے جواب دیا : ” انہوں نے تو کوئی ہدیہ نہیں بھیجا ”۔
اس پر حضرت سلمان فارسی نے کہا : ”خدا سے ڈرو اور جو امانت لائے ہو ، وہ مجھے دے دو ، آج تک جو بھی ان کے پاس میریطرف آیا ہے ، وہ ان کی طرف سے ہدیہ ضرور لایا ہے ”۔
ان دونوں نے کہا : ”آپ ہم پر کوئی مقدمہ نہ بنائیں ، ہمارے پاس مال اور اسباب ہے ، اس میں سے آپ جو چاہیں لے لیں ”۔
حضرت سلمان فارسی نے فرمایا : ” میں تمہارا مال یا سامان لینا نہیں چاہتا ، میںتو وہ ہدیہ لینا چاہتا ہوں جو انہوں نے تم دونوں کے ذریعے بھیجا ہے ”۔
اب انہوں نے قسم کھا کر کہا :”انہوں نے کچھ نہیں بھیجا ، بس ہم سے اتنا کہا تھا کہ تم لوگوں میں ایک صاحب اتنے قابل احترام رہتے ہیں کہ حضور ۖ جب ان سے تنہائی میں بات کیا کرتے تھے تو کسی اور کو ان کے ساتھ نہیں ملاتے تھے ۔ جب تم ان کے پاس جائو تو انہیں میری طرف سے سلام کہہ دینا ۔۔۔”
یہ سن کر حضرت سلمان فارسی نے فرمایا کہ ” میں اس کے علاوہ کون سا ہدیہ چاہتا تھا اور کون سا ہدیہ سلام سے افضل ہو سکتا ہے ۔ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک بابرکت اور پاکیزہ کلام ہے ”۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں