editorial 3 1

کوئی حد ہے ان کے عروج کی

آج مئی کے مہینے کی 16تاریخ ہے اور پاکستان سمیت ساری دنیا میں آج روشنی کے عالمی دن کے علاوہ پرامن بقائے باہمی کا عالمی دن بھی منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 72/130 کی منظوری کے بعد پرامن بقائے باہمی کا عالمی دن 16مئی کو منانے کا اعلان کیا تھا جبکہ روشنی کے عالمی دن کو ہر سال مئی کے مہینے کی سولہ تاریخ کو منانے کا تعلق سولہ مئی 1960سے ہے، جب فزکس کے ماہر انجینئر تھیوڈور میمن نے لیزر لائٹ کو استعمال کرکے ایک بہت ہی نازک آپریشن کرنے کا کامیاب تجربہ کرکے میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک نئے چیپٹر کا آغاز کر دیا تھا۔ گویا سولہ مئی کو روشنی کا عالمی دن منانے کا مقصد روشنی کی تیزدھار شعاع جسے لیزر کہا جاتا ہے کو میڈیکل سائنس کی دنیا میں نہ صرف متعارف کرانے بلکہ اس کے ذریعہ کامیاب آپریشن کرنے کی سالگرہ کے طور پر منائے جانے کا تسلسل ہے۔
یہ تو اک رسم جہاں ہے ادا ہوتی ہے
ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے
پرامن بقائے باہمی کے عالمی دن اور روشنی کے عالمی دن میں جو مطابقت ہے شائد عالمی دن منانے والے بااختیار عالمی اداروں نے اس حوالے سے کچھ سوچا ہو یا نہ سوچا ہو۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں موضوعات انسانیت کے احترام اور اس کی بقاء کیئے اتنے اہم ہیں کہ ان دونوں موضوعات پر ایک ہی بات کی جا سکتی ہے۔ اگر روشنی نہ ہوتی تو دنیائے آب وگل یا کائنات رنگ وبو کے سارے نظارے گھپ اندھیروں میں کھو جاتے اور ہم سب اپنے آپ کو اندھا یا نابینا محسوس کرنے لگتے، کیونکہ ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے اس روشنی ہی کے سبب ہماری آنکھوں میں لگے عدسے ان کو ہمارے دماغ کی اسکرین پر فوکس کرکے ہمارے دیکھنے اور دیکھ کر سمجھنے کی حس کو بیدار کرتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہماری نظروں کے سامنے موجود شے کس رنگ کی ہے اس کی شباہت کیسی ہے، وہ کتنی بڑی ہے، کتنی چھوٹی ہے اور ہم سے کتنی دوری پر موجود ہے۔
بصارت سب کو دیتا ہے، بصیرت پاس رکھتا ہے
خدا بھی اپنے ہونے کی علامت پاس رکھتا ہے
اگر میں یہاں عرض کروں کہ پرامن بقائے باہمی بھی کسی روشنی سے کم نہیں تو میں اس روشنی کی بات کر رہا ہونگا جس روشنی کا تعلق کا بصارت کی بجائے بصیرت سے ہوگا کیونکہ روشنی صرف کسی روشن منبع سے نکلنے والی شعاعوں کا ہی نام نہیں۔ ہم ہر اس نیک عمل کو روشنی کا نام دیتے ہیں جس سے یہ دنیا خلد بریں برروئے زمیں کا روپ دھار لے۔ پرامن بقائے باہمی کی اس اصطلاح کو ہم مختصر اور جامع الفاظ میں ”جیو اور جینے دو” کے جملوں میں سمو دیتے ہیں۔ جیو اور جینے دو کا حق ہر انسان اور حیوان کو اس ہی روز مل جاتا ہے جس دن یا جس لمحہ وہ اس دنیا میں آتا ہے۔ اس کی زندگی یا زندہ رہنے کی راہ میں جو قوت بھی حائل ہوتی ہے اصطلاحی لفظوں میں اس قوت کو موذی یا ضرر رساں کہا جاتا ہے اور زندہ رہنے کی راہ حائل ہونے والی ہر موذی قوت کو زائل کرنا یا اس کا قلع قمع کرنا اس پر واجب ہوجاتا ہے۔ اور یوں دو مخالف قوتوں کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے جس میں جیت طاقتور کی ہوتی ہے اور کمزور وناتواں یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یا اپنی شکست کے زخم چاٹتا رہ جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا شر فساد پرامن زندگی کے سکھ اور چین کو تاراج کر دیتا ہے۔ لڑائی جھگڑا شر فساد اور جنگ وجدل کی صورتحال اس وقت پیدا نہیں ہوتی جب دو قوتیں ایک دوسرے کے جینے یا بقاء کی خاطر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے رکھتی ہیں، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتی ہیں، کچھ لو کچھ دو کی حکمت عملی پر کاربند رہتی ہیں، مفاہمت اور باہمی عزت واحترام کے ساتگ پیدا کئے جانے والے ماحول میں پرامن بقائے باہمی کے جذبو ں کو فروغ دیتی ہیں اور یوں چہار سو سکھ چین پیار محبت عدل وانصاف اور امن عامہ کی روشنی پھیلنے لگتی ہے، جس طرح محبت اور نفرت ایک دوسرے کی ضد ہیں، اس طرح اندھیرا ا ور اُجالا بھی دو متضاد صفات کے نام ہیں
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
اُجالا روشنی کا مترادف ہے اور اندھیرا تاریکی کا متبادل، سائنس دانوں نے روشنی کا اتنا مطالعہ کیا کہ وہ سائنس کے ایک اہم شعبہ فزکس کا نہایت اہم موضوع بنکر تحیرکدہ عالم کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے لگی۔ روشنی کو نور بھی کہتے ہیں اور نوری سال کی اصطلاح کائنات کی وسعتوں کو ماپنے کی اکائی بن کر استعمال ہوتی رہی ہے، روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے، ایک سیکنڈ میں اتنا فاصلہ طے کرنے والی روشنی ایک نوری سال میں کتنا فاصلہ طے کرتی ہوگی، اس کا اندازہ آپ خود ہی لگالیں، کائنات لم یزل میں ایسے بہت سے سیارے اور ستارے ہیں جن کے درمیان کئی کئی نوری سالوں کا فاصلہ ہے، آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ جب کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہے تو وقت کی رفتار رک جاتی ہے، آئن سٹائن کے اس نظریہ کو نظریہ زمان ومکان کہا جاتا ہے جو سائنسی ثبوت پیش کرتا ہے واقعہ شب معراج کا کہ اس رات براق النبی آخر الزماںۖ کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی بڑھ گئی تھی اور وقت پکار پکار کر کہنے لگا تھا کہ
سر لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبی
کوئی حدہے ان کے عروج کی، بلغ العلیٰ بکمالہ

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا