tanveer ahmad 11

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

میٹھی عید ہر سال اپنے ساتھ محبتوں کی مٹھاس لیکر آتی ہے، رمضان المبارک کے اختتام پر یہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہوتا ہے بہن بھائیوں، دوستوں، رشتہ داروں سے ملاقات بلکہ ملاقاتیں ہی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب بچے میلوں ٹھیلوں پر جایا کرتے تھے، بچوں کی عید پر دو بڑی خوشیاں ہوا کرتی تھیں اپنی عیدی وصول کرنا اور پھر بڑوں کیساتھ میلے پر جانا، وہاں جھولے جھولنا، کٹھی میٹھی، نمکین چیزیں کھانا۔ اب عید کے وہ انداز ہی نہیں جو ہمارے بچپن میں ہوا کرتے تھے! شہر کی آبادی کم تھی آج کوہاٹی گیٹ میں رش کا یہ عالم ہے کہ وہاں سے گزرنا محال ہے یہاں عید کے دن میلہ لگا کرتا تھا، لکڑی کے گھوڑوں والے گول جھولے بچوں کی بہت بڑی تفریح ہوا کرتے تھے، اسی طرح گنج پتی، آسیہ پتی اور دو چار اور جگہوں پر اسی طرح کے میلے لگا کرتے تھے۔ شہر کی آبادی جس رفتار سے بڑھی ہے حیرت ہوتی ہے اب میلے تو دور کی بات ہے یہاں سے گزرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ چیزیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، آج بچوں بڑوںکیلئے سب سے بڑی تفریح ٹی وی، سیل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ ہیں، ویڈیو گیمز نے انہیں اتنا مصروف کردیا ہے کہ انہیں گھر سے باہر نکلنے کی فرصت ہی نہیں ہے، اقدار میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے، لوگوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں، دراصل اس قسم کی تبدیلیاں تو ناگزیر ہوتی ہیں وقت کیساتھ ساتھ چیزوں نے بدلنا ہوتا ہے، اسی کا نام زندگی ہے لیکن اس عید پر تو جیسے سب کچھ بدلا بدلا نظر آتا تھا، عید منانے کا سب کا اپنا اپنا انداز تھا، کرونا کی وجہ سے بہت کچھ بدل گیا تھا، پہلے ہماری کہانی سن لیجئے! صبح سویرے سب سے پہلے سویوں پر ہاتھ صاف کیا، پھر نماز کیلئے تیار ہوئے اور اپنے علاقے کی مسجد میں عید کی نماز پڑھی، گھر واپس آئے، لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا اسے کھولنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ دیوار پر لگے کلاک پر نظر پڑی تو ساڑھے سات بج رہے تھے، سوچا ابھی تو کافی وقت ہے، آرام سے چادر تان کر سوگئے، دل میں یہی سوچ رہے تھے کہ کرونا نے لوگوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے اس عید پر کون ہمارے گھر آئے گا، خود بھی یہی سوچ رکھا تھا کہ اس مرتبہ گھر سے نہیں نکلنا کیا ضرورت ہے خطرہ مول لینے کی؟ لیکن دس بجے کے قریب بیٹے نے آکر اُٹھایا کہ مہمان آئے ہوئے ہیں، مہمان خانے میں بچوں کی فوج ظفر موج موجود تھی جنہیں دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوا کہ یہ تو سچ مچ کی عید ہے، اپنے بہن بھائیوں، بھانجوں بھتیجوں، دوستوں رشتہ داروں سے ملنا ہی عید ہوتا ہے، بچوں کا قدم مبارک ثابت ہوا اور پھر سارا دن مہمانوں کا تانتا بندھا رہا!
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اس گہماگہمی میں ہم سب کچھ بھول گئے کیسا کرونا کہاں کا کرونا؟ رات نو بجے مہمانوں کی آخری ٹولی کے رخصت ہوجانے کے بعد ہم بیٹے کی معیت میں گھر سے نکلے، عید پر بھائیوں کے گھر جانا تو ضروری ہوتا ہے اور اب تو یہ ملنا ملانا بھی صرف تہواروں یا غمی خوشی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب سیل فون تو دور کی بات ہے، گھروں میں فون بھی نہیں ہوا کرتے تھے لیکن چند دن گزر جاتے تو بھائی بھائیوں کی خبر لینے پہنچ جاتے، چند دنوں بعد بہن بھائیوں قریبی رشتہ داروں کا ملنا ملانا ایک عام سی بات تھی! اب یہ ملاقاتیں صرف سیل فو ن کے پیغامات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں، اب عید کے تین دن پشاور شہر کی سڑکیں سنسان پڑی ہوتی ہیں، دیہات میں رہنے والے اپنے گھروں کا رخ کرچکے ہوتے ہیں، بازار بند ہوتے ہیں اس لئے باہر سے بھی کوئی نہیں آتا اور پشاور کے باسی عید کی نماز کے بعد اپنے اپنے گھروں میں اپنے کمپیوٹرز، سیل فون کیساتھ مصروف ہوجاتے ہیں! ان کا کام دن بھر سیل فون پر عید مبارک کے پیغامات کے جواب دینا ہوتا ہے یہ سب کچھ کتنا مشینی ہوتا ہے آپ کی طرف جو پیغامات آتے ہیں آپ انہیں دوسروں کی طرف بھجوا دیتے ہیں، اب تو بہت سے لوگ اسے بھی ایک پریشانی ہی سمجھتے ہیں اس لئے عید مبارک کا ایک خوبصورت سا پیغام فیس بک، ٹویٹر یا انسٹاگرام پر لگا دیتے ہیں یہ پیغام اُمت مسلمہ، دوستوں، رشتہ داروں، شاگردوں اور اساتذہ کرام سب کیلئے ہوتا ہے جن کیساتھ سچ مچ کا تعلق ہوتا ہے (آج کل تعلقات کی بھی بڑی قسمیں ہیں) انہیں ایک آدھ فون کر دیا جاتا ہے ہمیں ہر عید پر چند فون ضرور موصول ہوتے ہیں اس مرتبہ ایک دوست نے فون کیا، عید مبارک کا تبادلہ ہوا ہم نے وبا کے دنوں میں آنے والی وکھری ٹائپ کی عید کی مصروفیات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بڑے بقراطی لہجے میں کہا جناب ہم نے تو اپنے ان قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو جو ہر سال عید ملنے ہمارے گھر آیا کرتے تھے چاند رات پر پیغام بھجوا دیا ہے کہ جناب ہماری طرف آنے کا تکلف نہ کریں اس مرتبہ اپنے اپنے گھر بیٹھ کر عید منانی ہے ہم ان کی بات سن کر سوچنے لگے کہ شاید یہ بھی ٹھیک کہہ رہے ہوں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے