p613 130

مہنگائی کی نئی لہر،عوام کی فریادکون سنے گا؟

نیپرانے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں ایک روپیہ65پیسے اضافے کی منظوری دیدی ہے، بجلی کی قیمت میں اس اضافہ سے صارفین پر 165ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ دوسری جانب یوٹیلیٹی سٹورز پر حکومتی سبسڈی کے باوجود کوکنگ آئل،گھی اور برانڈ دودھ کی فی لیٹر قیمت بھی بڑھا دی گئی، یہ اضافہ بالترتیب17روپے،4روپے اور5روپے ہے۔ گزشتہ روز ادویات کی قیمتوں میں 9سے 262فیصد اضافے کی منظوری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر وزیراعظم کے مشیرصحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ”ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ان کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے”۔مشیرصحت کے اس بیان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے منافع خوروں اور سرمایہ دار مافیا کے مقابلہ میں بے بس ہیں۔ مہنگائی کی اس حالیہ لہر کا تنخواہ دار اور محنت کش طبقوں پر کیا اثر پڑے گا اس بارے غالباً غور وفکر کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا ان کے حوالے سے بعض ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اضافہ سٹور سے سستے داموں خریدی گئی اشیاء کو مارکیٹ میں فروخت کرنے سے روکنے کیلئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس عمل میں صارف کا کردار تھا یا ملازمین کا؟۔ بجلی،پیٹرولیم اور گیس کی مصنوعات میں جب بھی اضافہ کیا جاتا ہے یا نجی شعبہ کو مصنوعات واشیاء کی(جیسا کہ ادویات) قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی جاتی ہے کسی بھی مرحلہ یا وقت ہر دوپر عوام الناس کی آراء اور قوت خرید کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ بجلی، پیٹرولیم اور گیس ان تینوں کی قیمتوں میں اضافے سے ہر بار مہنگائی کی ایک نئی جان لیوا لہر شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ ان ظالمانہ اضافوں کی منظوری وہ قیادت دے رہی ہے جو پچھلے ادوار میں یوٹیلیٹی بلز اور مہنگائی میں اضافوں کو اس وقت کی حکومتوں کی نالائقی اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ قرار دیتی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران اور خصوصاً گزشتہ6ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے طبقات کی درجہ بندی میں ہونے والی تنزلی کے اعداد وشمار تو خوفناک ہیں ہی لیکن دوسری طرف خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔حکومت کی مالی مشکلات بجا ہیں لیکن کیا جن وجوہات جیسا کہ کورونا لاک ڈائون سے حکومتی آمدنی متاثر ہوئی کیا اس صورتحال سے عام آدمی متاثر نہیں ہوا؟ ہمارے پالیسی ساز آخر اس تلخ حقیقت کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اگر عام شہری کی قوت خرید سے زیادہ قیمتیں ہوں گی تو اس کے اثرات ونتائج کیا ہوں گے؟ ثانیاً یہ کہ مارچ سے31اگست تک ملک بھر میں کاروبار زندگی کورونا وباء کی وجہ سے متاثر ہوا، اس دوران نہ صرف بیروزگاری بڑھی بلکہ آمدنی واخراجات میں عدم توازن میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا، اندریں حالات ضرورت اس امر کی تھی کہ بجلی پیٹرولیم کی آمدنی میں سے حکومت کے حصے ٹیکسز میں اضافہ کم وبیش رواں سال دسمبر تک ملتوی رکھا جاتا تاکہ کورونا وباء کے چھ ماہ کے دوران مختلف شعبوں اور پھر آمدنی واخراجات میں جو عدم توازن پیدا ہوا اس میں کچھ کمی آجاتی، کاروبار زندگی کچھ مستحکم ہو پاتا، اس صورت میں بھی اگر حکومت یہ سمجھتی کہ حکومتی آمدنی بڑھانے کیلئے مختلف مدوںمیں اضافے ناگزیر ہیں تو ایسی حکت عملی وضع کی جانی چاہئے تھی جس سے کاروبار زندگی اور صارف دونوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سطح پر اس امر پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ایک مشکل عرصہ جس میں کم ازکم چھ ماہ کے دوران معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے، بظاہر گزر تو گیا ہے مگر اس کے اثرات ابھی دوچند ہیں۔ مناسب ہوتا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے165ارب روپے کا بوجھ صارفین پر منتقل نہ کیا جاتا، اس طرح ادویات کی قیمتوں میں9سے 262 فیصد اضافے کی منظوری کا معاملہ ہے حکومت کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ غربت، پسماندگی بیروزگاری جیسے سنگین مسائل اور پھر کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے ان مسائل میں مزید اضافہ اہل اقتدار کی توجہ اور عوام دوستی کے عملی مظاہرے کا متقاضی ہے۔ یہ کہہ دینا کہ ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا مقصد ان کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے سنگین مزاق سے کم نہیں۔ حکومتیں اپنے وقت پر معاشرے کے تمام طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہیں، حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایک طبقہ دوسرے کا استحصال نہ کرنے پائے، المیہ یہ ہے کہ نہ صرف استحصال بڑھ رہا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی کی آواز سننے والا بھی کوئی نہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار افراد اور خود بعض حکومتی اکابرین کا مہنگائی کی ابتر صورتحال پر افسوس بجا لیکن کیا محض افسوس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی اور مشکلات میں کمی آسکتی ہے؟ ان حالات میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ عوام سے قربانی طلب کرنے اور مشکل وقت میں صبر کی تلقین کرنے والے خود بھی قربانی اور صبر میں حصہ ڈالیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے