p613 134

مشرقیات

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے شیخ حضرت عثمان ہارونی کے ساتھ پہاڑ کی طرف ایک مقام پر گئے ۔ وہاں ایک غار میں ایک درویش کو دیکھا کہ عالم تحیر میں کھڑا ہے اور آسمان کی طرف دیکھتا ہے ، چہرہ زرد ہے ، ایک پائوں غار کے باہر ہے اور دوسرااندر ہے ۔ حضرت نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا”میں یہاں بارہ برس سے عبادت میں ہوں ۔ حق تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتے ہیں کہ وہ ہماری محبت سے سرشار ہیں یاقلب کا تعلق کسی اور سے ہے ۔ میری آزمائش رب تعالیٰ نے اس طرح لی کہ ایک عورت حسین و جمیل اور زیور سے آراستہ وہاں سے گزری تو شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈالا۔ میں نے غار سے نکل کر اس کو دیکھنے کی خواہش کی ۔ ابھی ایک پائوں باہر نکلا تھا کہ آواز آئی”تم کیسے ہو کہ شرم نہیں آتی، دعویٰ ہماری محبت کا کرتے ہو اور دیکھتے عورتوں کی طرف ہو ، یہ محبت کیسی ہے۔ تم میرے سامنے ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی طرف متوجہ ہوتے ہو”۔ (مخزن اخلاق)قبیلہ ثقیف کا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دروازے پر کھڑا تھا کہ اس کے پاس حضرت عثمان کی اولاد میں سے ایک آدمی آیااور کہا اے امیرالمومنین میں نے آج بہت ہی عجیب واقعہ دیکھا ہے ، خلیفہ نے کہا تم نے کیا دیکھا ہے؟ کہا میں شکار کھیل رہا تھا، جب بے آب وگیاہ جنگل میں پہنچا تووہاں پر ایک بوڑھے کودیکھا جس کے ابرو آنکھوں پر گرے پڑے تھے اور لاٹھی کی ٹیک لگا رکھی تھی ،میںنے پوچھا اے بزرگ تم کون ہو؟ اس نے کہا اپنے کام کوجائو، جس بات کے جاننے کا فائدہ نہیں ، اس کے درپے مت ہو ، میں نے کہا کیا تم عرب والوں کے اشعار بھی نقل کرتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ، میں بھی ان کی طرح شعر کہتا ہوں ، جیسے وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا تم کیا کہتے ہو؟ تو اس نے چند شعر کہے ۔ میں نے کہا یہ اشعارتو نابغہ بن ذبیان کے ہیں اے شیخ ! اس نے یہ شعرکہنے میں تم سے پہل کی ہے ، تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا : خداکی قسم ابو ہادر(نابغہ کی کنیت) میری طرف سے شعر کہتا تھا، پھر اس نے میرے گھوڑے کی گردن پر ٹیک لگائی اور کہا کہ”تم نے میرا بچپن یاد دلا دیا ۔ خدا کی قسم میں نے یہ شعر چارسو سال پہلے کہے تھے”۔ پھر میں نے زمین کی طرف دیکھا تو اس کا کوئی نام ونشان نہ تھا۔درحقیقت وہ ایک جن تھا۔(فوائد البخیرمی)امام اصمعی کہتے ہیں کہ ابو عمربن العلاء کی انگوٹھی پر یہ عبارت نقش تھی:”وہ آدمی جس کی تگ ودودنیا ہی ہو تو وہ غرور کی رسی کوتھامے ہوئے ہے”۔ میں نے ان سے اس کے نقش کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں دوپہر کو اپنے مال واسباب میں گھوم رہاتھا کہ ایک کہنے والے کو سنا جو یہ کہہ رہا تھا : یہی گھر ہے (یعنی یہ مال واسباب یہیں کام آئے گا فقط) میں نے جب دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا، میں نے پوچھا انسان ہو یا جن؟ کہا جن ہوں ، اس وقت سے میں نے اپنی انگوٹھی پر اس عبارت کو نقش کرایا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''