4 240

اپوزیشن جلسے کرنے سے کیوں نہیں رک رہی؟

کورونا وائرس کا پھیلاؤ تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے آس پاس روزانہ کی بنیاد پر دوست احباب اور رشتے دار اس کا شکار ہورہے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی کی موت کی خبر آرہی ہے۔ حکومت تو بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ احتیاط کریں، ماسک پہنیں، ہاتھ دھوئیں اور فاصلہ رکھیں، مگر یہ وبا حکومت اور اپوزیشن سے کہیں آگے جاچکی ہے۔
ہمارے لئے اگر صرف کورونا ہی مسئلہ ہوتا تو شاید اس سے ہم نمٹ ہی لیتے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا سے جڑے ہمارے اور بھی بڑے گمبھیر مسئلے ہیں۔
مثلاً کورونا پر سیاست، اپوزیشن جلسے کر رہی ہے اور حکومت ان جلسوں کو کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ان3ہفتوں کے وقفے سے اور کچھ ہو نہ ہو، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دھواں دار مہم کا مومینٹم ضرور ٹوٹ گیا ہے۔ پشاور کا جلسہ اگر برا نہیں تھا تو اچھا بھی نہیں تھا۔ ایسا تو ہرگز نہیں جس سے حکومت گھبرا جائے۔
مگر کورونا نے حالات کو اور زیادہ پیچیدہ کردیا ہے۔ کورونا کے اعداد وشمار ہمارے سامنے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر باقاعدگی سے یہ تمام ڈیٹا ہمارے ساتھ شیئر کر رہا ہے اور آپ خبروں میں روزانہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسز اور اموات دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
میں نے اس ہفتے ایک وفاقی کابینہ کے ممبر سے پوچھا کہ دوسری لہر میں جہاں ہم آج کھڑے ہیں، اس لیول پر ہم پہلی لہر میں کہاں تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ آج یہ وہ اسٹیج ہے جو مئی میں تھی۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ پہلی لہر کی جو پیک تھی وہ تقریباً 20جون کے پاس تھی۔ جب ایک دن میں150کے قریب پاکستانیوں کی اموات ہور ہی تھیں۔
یعنی اگر ہم نے بہت جلد بہت زیادہ احتیاط نہیں کی تو ہم تیزی سے ایک نئی پیک کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہسپتال بھرنا شروع ہوجائیں گے اور آکسیجن والے بستر کم پڑنا شروع ہوجائیں گے اور ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکیس بڑی تعداد میں اس وبا کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے۔
بظاہر تو جواب آسان ہے کہ کورونا جان لیوا ہے۔ سیاست حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک رسہ کشی ہے۔ مان لیا کہ سیاسی تناؤ محض ذاتی بنیادوں پر ہونا ضروری نہیں، کہیں نہ کہیں تو اصول چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی نظریہ، کوئی یقین، کوئی حقیقی جدوجہد کا پہلو۔ عین ممکن ہے ہمارے سیاسی لباس میں یہ نگینے جڑے ہوں مگر جان سے پیاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
تو پھر اگر یہ جواب اتنا ہی آسان ہے اور اگر کورونا کو سیاست پر ترجیح دینا ایک قومی فریضہ ہے، تو پھر اپوزیشن جلسے جلوس کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے؟ سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی ایک طرف اور لعن طعن اور گالم گلوچ ایک طرف۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آج ہمارا سیاسی نظام مفلوج ہوتا جارہا ہے۔ یہ نوبت تب آتی ہے جب اس نظام میں قومی سطح کے مسائل سے نمٹنے کی سکت ختم ہوجائے۔
میں حکومتی سکت کی بات نہیں کر رہا بلکہ نظام کی سکت کا ذکر کررہا ہوں۔ حکومت کا تو یہ دعوی ہے کہ وہ جو کرسکتی ہے کر رہی ہے۔ جتنی بھی اس میں سکت ہے اور جتنی بھی اس میں اہلیت ہے اس کے مطابق وہ زور لگا رہی ہے مگر حکومت خود اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر کورونا کی موجودہ صورتحال سے نہیں نمٹا جاسکتا۔ حکومت کے مطابق وجہ یہ ہے کہ جلسے کرکے اپوزیشن لوگوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ کورونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور جلسوں میں آنے سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس سے بے احتیاطی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی بے احتیاطی کے ہوتے ہوئے حکومت جو مرضی کر لے کورونا قابو میں نہیں آئے گا۔ مگر اپوزیشن اس سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کورونا کو نہیں بلکہ حکومت کو اور حکومت کی حکمت عملی کو اور حکومت کی نیت کو۔ یہ وہ شک ہے جو کہتا ہے کہ حکومت کورونا کی آڑ میں اپوزیشن کی مہم کو ناکام بنانا چاہتی ہے اور اس کے غبارے سے ہوا نکالنا چاہتی ہے۔ یہ ماحول پارلیمان میں، جلسوں میں یا پریس کانفرنسوں میں نہیں بن سکتا۔ اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے چند سینئر لوگوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر کورونا کے حوالے سے کچھ بات کرنا پڑے گی۔ اس میں پہل حکومت کو کرنی ہوگی اور وہ بھی کسی ایسے شخص کو جس کو گالم گلوچ کے علاوہ بھی کوئی زبان آتی ہو۔ ہے کوئی ایسا وزیر یا مشیر؟

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت