3 290

سعودی عرب اور قطر کا معاملہ

سعودی عرب اور قطر کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد ان معاملات کا تجزیہ کرنے سے پہلے میں نے اپنے قارئین کے سامنے وہ مطالبات پیش کئے جو سعودی عرب کی جانب سے قطر کو پیش کئے گئے تھے۔ 2017ء میں کئے گئے ان مطالبات پر قطر نے کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ کی، نہ ہی کوئی جواب دیا۔ اتنے ملکوں کیساتھ ہر قسم کے تعلقات کا منقطع ہو جانا بھی قطر کو اپنے اصولی مؤقف سے متزلزل نہ کرسکا۔ اب ان تعلقات کی بحالی کا فیصلے کے حوالے سے بھی مختلف آراء سامنے آرہی ہیں، کویت اور قطر اس ساری صورتحال میں ایک دوسرے کے حامی وساتھی رہے اور کویت اس صورتحال کی ابتری کو مٹانے کی بھرپور جدوجہد کرتا رہا ہے۔ چار جنوری کوکویت ہی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سعودی عرب نے قطر کیساتھ زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کی بحالی کا عندیہ دے دیا ہے۔ 2017 سے لیکر جنوری 2021 تک بار بار کویت اس بات کا بھی اظہار کرتا رہا کہ اس ساری صورتحال کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ قطر نے بھی اپنا مؤقف برقرار رکھا کہ تعلقات کے اس خاتمے کی کوئی جائز وجہ نہ تھی۔ اس مؤقف سے قطر سعودی عرب کے ان مطالبات کی صورت میں لگائے گئے تمام الزامات کو بھی رد کرتا رہا۔ کویت نے علاقے میں معاملات کی بہتری کے حوالے سے بہت کام کیا۔ کویت کے امیر شیخ نواف کی پیشکش کے مطابق سعودی عرب اور اس کے ساتھی قطر کیساتھ اپنے رابطے بحال کرنے کیلئے راضی ہوگئے۔ کویت کے امیر، سعودی عرب کے ولی عہد اور قطر کے امیر سے بات چیت کرتے رہے۔ اب یہاں پر ایک بات انتہائی اہم اور قابل غور ہے کہ اس تعلقات کی بحالی کا سہرا امریکہ بھی اپنے سر باندھنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ حکومت نے جاتے جاتے اس صورتحال میں بہتری کو اپنے سر کی کلفی بنانے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات کی بحالی کیلئے دن رات محنت کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاران تعلقات کی بحالی کیلئے مسلسل کارفرما رہے، یہاں تک کہ بہتری کی صبح کی کرن پھوٹنے لگی۔2017ء میں قطر پر دہشت گردی کو پناہ اور فروغ دینے کے الزامات لگا کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے اپنے تمام تعلقات منقطع کر دئیے تھے لیکن قطر نے کبھی ان الزامات کی توثیق نہ کی۔
وہ مطالبات جو سعودی عرب کی جانب سے قطر سے کئے گئے، ان میں بظاہر جو باتیں تھیں ان کے علاوہ کئی زیرِلب باتیںایسی تھیں جو زیادہ اہم نہیں۔ جن باتوں کا سرسری ذکر تھا وہ شاید موجودہ صورتحال میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایران اور ترکی کے حوالے سے مشرقی وسطیٰ کے اہم ملکوں خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے جذبات کا یوں اظہار نہایت قابل غور ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ترکی اپنی پرواز کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہا ہوگا اور ایران پر امریکی اور دیگر ملکوں کی پابندیوں کی گرفت ایسی شدید تھی کہ اس کے عوام تکلیف کی شدت سے کراہ رہے تھے۔ امریکہ کا مقصد کسی طور بھی ترکی اور ایران کو مسلسل اپنی گرفت اور شکنجے میں رکھنا تھا تاکہ چین اس خطے میں وہ بلاک بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے جس میں ایک طرف چین کھڑا ہوگا اور دوسری طرف روس موجود ہوگا۔ گزشتہ ایک دہائی سے اس بلاک کی تشکیل کیلئے کوششیں ہورہی ہیں۔ 2023ء میں ترکی پر پابندیوں کے خاتمے کیساتھ ہی ترکی اس بلاک کا ایک انتہائی اہم ممبر ہوگا۔ ایسے میں قطر جیسا ملک اگر ترکی اور ایران کی مدد سے ہاتھ اُٹھا لیتا تو یقیناً ایران کیلئے انتہائی مشکل ہو جاتی لیکن قطر کا یوں اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے رہنا دراصل اپنے برادر اسلامی ممالک کیلئے بہت اہم تھا۔ اس وقت میں اگر قطر، ترکی اور ایران کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کرتا، سعودی عرب کی ایسی اجارہ داری کو قبول کرتا تو نہ صرف اس کی انفرادی حیثیت بالکل ختم ہو جاتی بلکہ سعودی عرب کی پالیسی کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب دینا پڑتیں اور اس خطے میں قطر بھی ان بے شمار ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا جو سعودی عرب اور امریکہ کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 2017ء میں اگر ذرا بھی اپنے مؤقف کے حوالے سے دو رائے کا شکار ہوتا تو یقیناً آج قطر نے بھی سعودی عرب اور امریکہ کی مرضی کے عین مطابق اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہوتا اور فلسطین کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوچکا ہوتا۔
ایک ایسا ملک جو دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سرفہرست ہے وہ امریکہ کی ڈکٹیشن پر اسرائیل کو تسلیم کیوںکرتا۔ کیوں ترکی اور ایران کو بیچ راہ میں چھوڑ دیتا۔ اپنے مستقبل کا ایک عجب سا سودا کر لیتا جس میں اس کا خود کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔ فلسطین کی خودمختار ریاست کے مطالبے سے دست بردار ہو جاتا۔ اس میں کوئی بھی ایسا فائدہ نہ تھا جو قطر کیلئے قابل قبول ہوتا یا کسی بھی خودمختار تشخص کی مالک ریاست کیلئے مناسب ہوتا۔ قطر کا یوں کئی سالوں تک پابندیاں برداشت کرنا اور اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹنا نہایت قابل قدر ہے۔ اس صورتحال کے کچھ اور بھی پہلو ہیں جو اگلے کالم میں آپ کے سامنے پیش کروں گی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا