p613 243

حکومت اور حزب اختلاف دونوں کیلئے اچھا موقع

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ حکومت سے نجات کیلئے پی ڈی ایم تمام آپشنز بتدریج استعمال کرے گی۔ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی اس ناکام اور نااہل ٹولے کو گھر بھیجے گی۔دریں اثناء وفاقی وزراء نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن ایک بار چھوڑ کر سو بار تحریک عدم اعتماد لائے، اسے شکست ہوگی۔ پی ڈی ایم کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں، وفاقی وزرا نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا بھرپور مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو کھلا چیلنج کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپوزیشن ایک نہیں سو بار تحریک عدم اعتماد لا کر دیکھ لے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو آئینی طور پر تسلیم کرلیا، اب سلیکٹڈ کہنا بند کر دیں۔اگرچہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان لفظی گولہ باری میں زیادہ کمی نہیں آئی لیکن اس کے باوجود ملک کا سیاسی منظر نامہ اب کم ازکم جمہوری طریقہ کار اختیار کرنے اور اپوزیشن کے اقدام کا آئین اور قانون کے مطابق جواب دینے کی حد تک بات آگئی ہے۔ حزب اختلاف دھیرے دھیرے امن عامہ کیلئے خطرے اور شہری آزادی وآمدورفت کیلئے مشکلات بننے والے احتجاج کی حکمت عملی تبدیل کرکے پُرامن متین اور سیاسی طور پر مروج ونتیجہ خیزطریقہ کار کی طرف آگئی ہے، جوان کا حق ہونے کیساتھ ساتھ احسن ہے جبکہ دوسری طرف یہ حکومت کیلئے بھی پریشان کن نہیں بلکہ قابل قبول ہے جس کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا حکومت کا حق اور فرض ہے۔ اس طرح سے حکومت بچانا اور حکومت کی رخصتی ہر دو صورتیں جمہوریت، آئین اور قانون کیخلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے طریقے سے حکومت کا تحفظ یا حکومت کی رخصتی کی ہر دو صورتیں ملک وقوم کیلئے مضر نہیں، جس میں ملکی معیشت اور امن وامان متاثر نہ ہو، احتجاج کا حق بھی مختصر مدت کیلئے اور پرامن طور پر اختیارواستعمال کرنے میں بھی مضائقہ نہیں، حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا احسن موقع دے کر جو اچھا فیصلہ کیا اس کے مظاہر نہ صرف راولپنڈی میںمظاہرہ کے اعلان پر منتج ہوئے بلکہ اب تحریک عدم اعتماد اور ایوان کے اندر تبدیلی لانے پر غور ہونے لگا ہے۔ دنیا کی ہر جمہوریت میں یہ طریقہ کار مروج ہے، اگر حکومت کے پاس اکثریت نہیں تو پھر اسے حکومت کا کوئی حق حاصل نہیں اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو حزب اختلاف کو جواب مل جاتا ہے، ہر دو جانب سے غلط فہمی دور ہونے کے بعد ہی عوام کے مفاد اور ملکی مسائل ومشکلات کی طرف حکومت اور اپوزیشن متوجہ ہوسکیں گی۔
سروے کا نامناسب طریقہ
احساس کفالت پروگرام کیلئے سروے میں مستحقین افراد کے نام شامل کرنے کیلئے نئی شرائط اور پیمانہ پیچیدہ، مشکل اور تقریباً ناقابل عمل ہے ہی، یہ کسی طور بھی قابل قبول اور شفافیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حامل ثابت نہ ہوسکے گا، نئی کسوٹی کے مطابق وظائف دینے کو اب گھروں پر موجود سہولیات سے اس کو مشروط کردیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس نئے سروے کی روشنی میں غیر مستحق خاندانوں کو اس پروگرام سے نکال باہر کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس مقصد کیلئے پشاور کے شہری اور مضافاتی علاقوں میں سرکاری سکول ٹیچرز کے ذریعے رجسٹرڈ خاندانوں کی جانچ پڑتال کا آغاز کر دیا گیا ہے، سروے کیلئے سوالات میں گھروں میں فریج یا واشنگ مشین وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے جن گھروں میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں تو یہ لوگ غیرمستحقین کی لسٹ میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ مستحقین کی جانب سے بعض علاقوں میں سروے کرنے والوں کی غیر سنجیدہ سوالوں کے حوالے سے شدید تحفظات سامنے آنے لگے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ اشیاء کا گھر میں ہونا کسی طور بھی مستحق نہ ہونے پر دال نہیں ہونا چاہیے، قسطوں پر، کسی سے پرانی چیز مفت میں ملنے پر، قرضہ لیکر ماں باپ کی جانب سے جہیز میں کوئی چیز دینے وغیرہ وغیرہ کی صورت ان میں سے کوئی ایک چیز کسی گھر میں موجود ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ مستحق نہیں۔ مثال کے طور پر پہلے کسی کے گھر کے حالات اچھے تھے، شوہر کمائو تھا یا معاشی حالات کسی طرح قدرے بہتر تھے، اب اگر وہ نہیں رہے اور اس وقت کی اشیاء گھر میں موجود ہوںتو یہ حقدار اور غیرمستحق کا فیصلہ کرنے کیلئے کافی نہیں۔ کسی نے غلط بیانی کی اور سروے ٹیم میں شامل عملے کو دھوکہ دیا گیا یا پھر انہوں نے غلط فہمی کی بناء پر کسی کو فہرست سے باہر رکھا، تو پھر حقدار خاندان محروم رہیں گے۔ گزشتہ شرائط میں پاسپورٹ، حج وعمرہ جیسی شرائط جو دستاویزی حیثیت کے بھی حامل تھے اس بناء پر ہونے والے سروے میں بھی شکایات اور فریاد کے دفتر کے دفتر کھلے تھے، موجودہ طریقہ کار اس سے کہیں زیادہ پست اور سطحی ہے۔ حقیقی مستحقین کا تعین ضرورہونا چاہئے اور غیر حقدار عناصر کو لسٹ سے نکال دینے کی سعی احسن ہوگی لیکن اس کیلئے قابل اعتماد اور مستند طریقہ اختیار کیا جائے۔ احساس پروگرام کو سیاسی عناصر سے پاک رکھا جائے، اقرباء پروری اور جعلسازی کی روک تھام ہونی چاہئے، اگر ان قبایح سے اس پروگرام کو پاک رکھا جائے اور سربراہ خاندان کی آمدنی وروزگار دیکھ کر اسی کے مطابق وظیفہ کا تعین کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، یہ عمل شفاف طریقے سے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ حقدار ہی وظیفہ پائیں۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری